انڈونیشیا: 180 سے زیادہ روہنگیا پناہ گزین کشتی کے ذریعے آچے پہنچ گئے
انڈونیشیا کے صوبہ آچے میں پیر کے روز 180 سے زیادہ روہنگیا مسلمان پہنچے ہیں ۔
حکام نے بتایا کہ یہ ان سینکڑوں تارکین وطن میں شامل ہیں جو میانمار اور بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مایوس کن حالات سے دلبراشتہ ہو کر کشتی کے ذریعے فرار ہوئے ہیں۔
مقامی پولیس کے مطابق ، مشرقی آچے ضلع میں پہنچنےوالے کم از کم 175 روہنگیا پناہ گزینوں کو تلاش کر لیا گیا ہے جب کہ 13 ابھی تک لاپتہ ہیں۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ کتنے جہازوں پر تھے۔
گزشتہ سال نومبر سے انڈونیشیا نے 918 روہنگیا رجسٹر کیے ہیں جو اس کے دور افتادہ مغربی علاقے آچے پہنچےہیں۔
تقریباً 10 لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش میں پرہجوم کیمپوں میں رہتے ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو 2017 میں میانمار کی فوج کے مہلک کریک ڈاؤن سےجان بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر فرار ہوئے تھے۔
میانمار انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب سے انکار کرتا ہے۔
اسرائیل: بچوں، خواتین اور 55 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو یروشلم میں نماز جمعہ کی اجازت
اسرائیل کے زیر انتظام علاقوں میں حکومتی سرگرمیوں کے کوآرڈینیٹر نے پیر کو اعلان کیا تھا کہ فلسطینی خواتین، 12 سال سے کم عمر کے بچوں اور 55 سال سے زیادہ عمر کے مردوں کو رمضان کے پہلے جمعہ کے موقع پر بغیر اجازت یروشلم جانے کی اجازت ہوگی۔
رمضان المبارک کے پہلے جمعے کی نماز کے لیے مغربی کنارے سے ہزاروں فلسطینی مسجد اقصیٰ میں نماز میں شرکت کے لیے چوکیاں عبور کرکے یروشلم پہنچے۔
طالبان کی تحویل میں موجود امریکی شہریوں کے انخلا کی کوشش کر رہے ہیں: بلنکن
امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ طالبان حکام کی تحویل میں موجود 44 امریکی شہریوں اور دیگر افراد کے افغانستان سے انخلا کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی کانگریس میں ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ محکمۂ خارجہ نے طالبان حکومت کے قیام کے بعد 975 امریکی شہریوں کو افغانستان سے نکلنے میں مدد فراہم کی ہے، جب کہ 175 ایسے افراد اب بھی وہاں موجود ہیں جو خود کو امریکی شہری بتاتے ہیں۔
انٹنی بلنکن نے کہا کہ سیکیورٹی کے پیشِ نظر طالبان حکام کی تحویل میں موجود افراد اور ان کے اہلِ خانہ کی شناخت ظاہر نہیں کی جارہی ہے۔
پابندیاں ختم کیے جانے پر ہی امریکہ کے ساتھ کام کر سکتے ہیں: طالبان وزیر خارجہ
طالبان کے عبوری وزیرِ خارجہ مولوی امیر خان متقی نے کہا ہے کہ افغانستان پابندیاں ختم کرنے کی شرط پر امریکہ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
نشریاتی ادارے الجزیرہ کے لیے اپنے ایک مضمون میں طالبان وزیرِ خارجہ نے تسلیم کیا ہے کہ اس وقت افغانستان کئی بحرانوں سے دوچار ہے۔
تاہم انہوں نے امریکہ سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی عائد کردہ پابندیوں کو ان مشکلات کا سبب قرار دیا ہے۔
امیر خان متقی نے اپنے مضمون میں خواتین پر عائد پابندیوں اور دہشت گرد تنظمیوں کے خلاف اقدامات سمیت ان تحفظات کا کوئی ذکر نہیں کیا جن کے باعث طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تنقید اور سفارتی تنہائی کا سامنا ہے۔