آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو اردن کے شمال مشرقی ریگستان میں ایک ایسے احاطے کے آثار ملے ہیں جو پتھر کے زمانے کے انسان کے استعمال میں رہا اور جسے انسان کی قدیم ترین تعمیرات میں شمار کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں اس سے بھی زیادہ قدیم تہذیب کی نشاندہی ہے جو اس سے پہلے قدیم تر خیال کی جاتی تھی۔
اردن میں قدیم نوادرات کی وزارت نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ نو ہزار سال پرانے، پتھر سے بنے، انتہائی بلند قامت انسانی مجسمے، ملک کے شمال مشرقی ریگستان کے جبل خشابیہ نامی علاقے میں دریافت ہوئے ہیں۔
اردن میں ماہرِ آثارِ قدیمہ، ویل ابو عزیزہ نے نامہ نگاروں کو بتایا، " پتھر سے بنے یہ بلند قامت انسانی ڈھانچے اب تک دریافت ہونے والے قدیم ترین ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ نو ہزار سال قبل پتھر کے زمانے کے شکاری پتھر کے اس وسیع احاطے کو جانوروں کو گھیرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ انہیں میں ایک ڈھانچہ مقبرہ نما بھی ہے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس میں قدیم رسومات کا سامان رکھا گیا ہوگا۔
اس دریافت کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمان میں امیریکن سینٹر آف ریسرچ میں ماہرِ آثارِ قدیمہ، پئیرس پال کریز کہتے ہیں کہ یہ آثار اردن میں اس سے پہلے ملنے والے "عین غزال" نامی ایسے ہی ڈھانچوں سے زیادہ قدیم ہو سکتے ہیں۔
کریز مین کہتے ہیں، " اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک نہایت اہم دریافت ہے۔ "عین غزال" کو روایتی طور پر قدیم ترین اور انتہائی اہم انسانی دریافت سمجھا جاتا ہے مگر ہو سکتا ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ قدیم ہوں۔"
ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی ایک ٹیم نے جس میں امریکی ماہرین بھی شامل ہیں، کہا ہے کہ دریافت کیے گئے موجودہ آثار ظاہر کرتے ہیں کہ پتھر کے زمانے میں شکار پر گزارہ کرنے والی آبادیاں جو عراق کی نسبتاً جدید آشوریہ تہذیب سے بھی کئی ہزار سال قدیم ہیں، اورجہاں زندگی زیادہ بہتر بھی نہیں تھی، انتہائی اولین تہذیب کو ظاہر کرتی ہیں۔
اس مقام پر ماہرین کو بچوں کے کھلونے بھی ملے جو شاید انہی شکاریوں نے بنائے ہوں گے جنہوں نے عرب کے صحرا میں شکار کے لیےسفر کے دوران پتھروں پر انسانی چہرے کندہ کیے۔
کریز مین کہتے ہیں کہ،" یہ اس بات کی واضح شہادت ہے کہ ایک ایسے وقت میں جسے زمانے کے تعین کا آغاز کہا جاسکتا ہو، یہ ایک انتہائی پیچیدہ سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے اورہو سکتا ہے یہ اس سے بھی پہلے کا زمانہ ہو جسے ہم انسانی تہذیب کا آغاز خیال کرتے ہیں۔"
ماہرینِ آثارِ قدیمہ کہتے ہیں کہ یہ دریافت ہو سکتا ہے مشرقِ وسطیٰ میں اولین انسانی تہذیب کا تصور یکسر تبدیل کر دے۔