دنیا میں جتنے افراد صحت کے شعبے سے وابستہ ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ تعداد نرسوں کی ہے اور کرونا وائرس کی وبا کے پیشِ نظر دنیا کو 60 لاکھ نرسوں کی کمی کا سامنا ہے۔
عالمی ادارہ صحت، نرسنگ ناؤ اور انٹرنیشنل کونسل آف نرسز کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا میں گھرے ممالک میں نرسوں کی اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
فرانس کے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹیڈروس ایڈنوم گیبریاسز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نظامِ صحت میں نرسوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں نرسیں صفِ اول کی سپاہی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دو کروڑ 80 لاکھ نرسیں صحت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 2013 سے 2018 تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران نرسوں کی تعداد میں 40 لاکھ 70 ہزار کا اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر 59 لاکھ نرسوں کی کمی کا سامنا رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افریقہ، جنوب مشرقی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے کچھ حصوں میں نرسوں کی شدید کمی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے ان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ نرسنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔ نرسوں کی تعلیم اور ان کے لیے ملازمتوں کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کریں۔
انٹرنیشنل کونسل آف نرسز (آئی سی این) کے چیف ایگزیکیٹیو ہاورڈ کیٹن کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں نرسوں کی تعداد انتہائی کم ہے وہیں انفیکشنز کی شرح، دواؤں کے استعمال میں غلطیاں اور مرنے والوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔
ادھر 'نرسنگ ناؤ' کا بھی یہی کہنا ہے کہ نرسنگ کے شعبے میں فوری اور زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔
ہاورڈ کیٹن کا کہنا ہے کہ اٹلی میں کرونا وائرس سے جنگ میں مصروف 23 نرسیں زندگی کی بازی ہار گئی ہیں جب کہ دنیا بھر میں اس وبائی مرض سے تقریباً 100 ہیلتھ ورکرز متاثرین کو بچاتے بچاتے خود لقمہ اجل بن گئے ہیں۔
ہاورڈ کا مزید کہنا ہے کہ اٹلی میں نو فی صد اور اسپین میں 14 فی صد طبی کارکن اپنے پیشہ ورانہ خدمات کے دوران خود بھی انفیکشن کا شکار ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ ممالک کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر زیادہ تنخواہ اور مراعات کے عوض نرسوں اور دیگر طبی عملے کو بھرتی کر رہے ہیں۔ یہ عمل اُن غریب ممالک کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے جہاں سے طبی عملہ بیرون ملک روانہ ہو رہا ہے۔
ہاورڈ کے مطابق ان ممالک میں بھارت اور فلپائن کی مثالیں سرِ فہرست ہیں جہاں اندرونِ ملک تو نرسوں اور طبی عملے کی قلت ہے لیکن بیرونِ ملک بھارتی اور فلپائن نرسوں اور دیگر طبی عملے کی بھرمار ہے۔
رپورٹ میں ماہرین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ نرسنگ کے شعبے میں خواتین کا غلبہ ہے جب کہ میل نرسوں کو زیادہ سے زیادہ بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے جن شعبوں میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں تنخواہوں اور قوانین میں بھی بہتری آئی ہے۔