کراچی کے علاقے صفورا گوٹھ کے قریب نامعلوم افراد کے ہاتھوں حملے کا شکار ہونے والی بس صفورا گوٹھ اسکیم 33 میں واقع ’الاظہر گارڈنز‘ سے عائشہ منزل جا رہی تھی۔
آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے مطاب،ق بس میں 60سے زیادہ لوگ سوار تھے جن کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا۔ تمام، افراد معمول کے مطابق گھروں سے جماعت خانہ جانے کے لئے نکلے تھے کہ صفورا چورنگی کے قریب تین موٹر سائیکل سوار چھ دہشت گردوں نے بس کو روک کر پہلے ڈرائیور کو نشانہ بنایا، پھر مسافروں پر خودکار ہتھیاروں سے فائرنگ کی۔
دہشت گردوں کے فرار کے فوری بعد بس کنڈکٹر جس کا نام سلطان علی باقر بتایا جا رہا ہے اور جو خود بھی بری طرح زخمی تھا اس نے ہمت کرکے بس خود ڈرائیو کی اور قریب ہی واقع میمن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ اینڈ ہاسپیٹل لے پہنچا، جہاں موجود ڈاکٹرز نے فوری طور پر اپنی ذمہ داری نبھانا شروع کردی۔
ڈاکٹرز کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ متعدد افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے۔ لہذا، ان کی ڈیڈ باڈیز اور کچھ زخمیوں کو دوسرے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا، تاکہ مطلوبہ سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔
آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کے مطابق واقعے میں نائن ایم ایم پستول کا استعمال کیا گیا۔ پویس نے موقع پر پہنچ کر بس میں موجود شواہد اکٹھا کرنا شروع کردیئے۔ دو اہلکاروں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کچھ شواہد دکھاتے ہوئے اس کی تفصیلات کے سلسلے میں کہا کہ انہیں نائن ایم ایم سے چلنے والے گولیوں کے متعدد خول ملے ہیں۔
بقول اُن کے، ’بس سے ایک ہیٹ بھی برآمد ہوا جو غالباً کسی حملہ آور نے پہن رکھا ہوگا۔ بظاہر وہ پرائیویٹ سیکورٹی کمپنی کے گارڈ کا لگتا ہے۔ کیپ پر کمپنی کا نام بھی درج ہے۔ تاہم، ابھی اس کی مکمل تفتیش ہونا باقی ہے۔‘
ایس آئی او تھانہ سچل کے مطابق، بس سے ایس ایم جی کے 5 اور نائن ایم ایم پسٹل کے 21 خول ملے۔ان کے بقول ’3 حملہ آور پولیس کی وردی میں اور 3 سادہ لباس میں ملبوس تھے۔‘
الاظہر گارڈنز نسبتاً کم آبادی والا علاقہ ہے اس لئے یہاں لوگوں کی آمد ورفت کم ہوتی ہے۔ تاہمم زیادہ تر اسماعیلی افراد ہی یہاں بستے ہیں۔ پولیس کے مطابق دہشت گردوں نے اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بس کو روانگی کے کچھ ہی منٹوں بعد غازی اور ماروئڑا گوٹھ کے درمیان سنسان علاقے میں گھیر کر اس پر فائرنگ کی۔
صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے سخت الفاظ میں حملے کی مذمت کی گئی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے وزارت داخلہ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے۔
جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ، گورنر محمد خان اچکزئی، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، اے این پی رہنما اسفند یار ولی خان اور دیگر افراد نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ملزمان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
آرمی چیف اور وزیرا عظم کی کراچی آمد
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کراچی میں موجود ہیں۔ جنرل راحیل شریف کو آج سری لنکا کے دورے پر روانہ ہونا تھا۔ تاہمم وہ دورہ ملتوی کرکے کراچی پہنچ گئے۔ کراچی آمد کے ساتھ ہی انہوں نے واقعے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف شام کے اوقات میں کراچی پہنچنے اور گورنر ہاوٴس میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کی۔
دوسری جانب، صوبائی وزراء اور سیاسی جماعتوں کے متعدد رہنماوٴں نے میمن اسپتال کا دورہ کیا۔ ان کی دن بھر آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ان افراد نے سخت ترین الفاظ میں واقعے کی بھرپور انداز میں مذمت کی اور دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچانے کا بھی عزم ظاہر کیا۔
سرچ آپریشن
سانحے کے بعد، پولیس نے کراچی کے علاقوں پٹیل پاڑہ اور جہانگیرآباد میں سرچ آپریشن کیا اور18 مشتبہ کو افراد کو حراست میں لے لیا۔ پولیس کے مطابق پٹیل پاڑہ اور جہانگیرآباد میں جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کی اطلاع پر سرچ آپریشن کیا گیا ہے۔
واقعے سے متعلق عینی شاہد کا بیان
واقعے سے متعلق بس میں سوار ایک زخمی خاتون عینی شاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ روانگی سے چند منٹ بعد ہی دہشت گردوں نے بس کو گھیر لیا۔ تمام مسافروں کو سر نیچے کرنے کا حکم دیاگیا، جبکہ عقب سے ایک اور شخص نے بلند آواز میں کہا کہ سب کو مار ڈالو ۔۔اسی اثناء میں فائرنگ شروع ہوگئی۔
خاتون کے مطابق، دہشت گرد پچھلے گیٹ سے سوار ہوئے تھے۔ ابتدائی طور پر سمجھا گیا کہ شاید ڈاکو آگئے۔ لیکن، ان افراد نے آتے ہی سب سے پہلے بس کے ڈرائیور کو زد و کوب کیا اور پھر فائرنگ کرکے اسے مار ڈالا۔