وسعت اللہ خان کئی دہائیوں سے بی بی سی سے وابستہ ہیں اور بیس سال سے اس کی ویب سائٹ پر لکھ رہے ہیں۔ اخبار میں بھی کالم لکھتے ہیں۔ ٹی وی پر بھی تجزیہ کاری کرتے ہیں۔ ان کا نام نہ لکھا ہو تب بھی لوگ ان کی تحریر کو پہچان جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ کہ وسعت اللہ خان نے اردو کی میڈیائی لغت میں بخشو جیسے بہت سے الفاظ کا اضافہ کیا ہے اور منفرد اسلوب اختیار کیا ہے۔
دوسروں کے استاد وسعت اللہ خان میرے وسعت بھائی ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پاکستان میں سنسرشپ کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
وسعت بھائی نے کہا کہ یہ سنسرشپ دیکھ کر مجھے ضیا الحق کی سنسرشپ پر پیار آنے لگا ہے۔ اس دور میں وہ کوڑے مارتے تھے تو کوڑے مارتے تھے۔ سب کو پتا ہوتا تھا۔ اس میں چھپانے والی کوئی بات نہیں تھی۔ محکمہٴ اطلاعات کے افسر کو جو خبر پسند نہیں آتی تھی، وہ اسے اکھاڑ دیتا تھا۔ صبح اخبار چھپتا تھا تو خالی جگہ پوری دنیا کو نظر آتی تھی۔ اس میں بھی چھپانے والی کوئی بات نہیں تھی۔ اس سے پتا چل جاتا تھا کہ ملک میں سنسرشپ ہے۔
پچھلے 40 سال میں دنیا بہت ترقی کر چکی ہے۔ اس لیے سنسرشپ کا حربہ استعمال کرنے والے بھی ’سوفسٹیکیٹڈ‘ ہوگئے ہیں۔ انٹیلی جنٹ ہوچکے ہیں۔ اب وہ سنسرشپ نہیں کہ صحافت کے جسم پر چاقو لگ گیا تو خون وون سب دیکھ رہے ہیں۔ اب آپ نے کوئی مکا مارا ہوگا۔ لیکن اندر چوٹ لگی ہے، باہر کوئی نشان نہیں ہے۔ تو میں ثابت بھی نہیں کرسکتا۔ بھیا اگر کوئی میرا گلا گھونٹ رہا ہے تو وہ نظر بھی آنا چاہیے نا! تو وہ نظر نہیں آرہا۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر جن چڑھ گیا ہے۔ یہ کام اب بج رہا ہے اور بے آواز ہے ٹائپ ہوگیا ہے۔ یا میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
’سنسر از نو مور اے ہتھکنڈا‘ یا ’ہیوی ہینڈ‘ اوزار نہیں ہے۔ اب سنسر ایک سوفسٹیکیٹڈ آرٹ ہے۔ میں تو بھیا داد دیتا ہوں اس کی۔ میڈیا بھی ہے، چھتیس چینل بھی چل رہے ہیں۔ ٹاک شوز بھی جاری ہیں۔ لیکن کچھ ہے جو مسنگ ہے۔ اور آپ اسے پکڑ کے دکھائیں۔
پہلے محکمہ اطلاعات سنسر کرنے کا مجاز ہوتا تھا۔ اب کوئی بھی کیبل آپریٹر آپ کا ٹینٹوا دبا سکتا ہے۔ آپ کس سے لڑیں گے؟ کیبل آپریٹر سے؟ یہ آپ کا اور کیبل آپریٹر کا معاملہ ہوا۔ اس میں ریاست کہاں سے آگئی؟ اسٹیبلشمنٹ کا کیا تعلق؟ حساس ادارے کہاں ہیں؟ تو یہ بہترین چل رہا ہے۔ یہ آرٹ کی ایک قسم ہے جسے اپری شیئٹ کرنے کی ضرورت ہے۔
میں نے کہا کہ لوگ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے کالم روکے جارہے ہیں۔ بابر ستار، وجاہت مسعود، افراسیاب خٹک کی تحریریں روکی جاچکی ہیں۔ آپ بھی کالم لکھتے ہیں، آپ بھی ٹی وی پروگرام کرتے ہیں۔ آپ اس کی زد میں آئے یا نہیں؟ یا آپ بھی سوفسٹیکیٹڈ ہوگئے ہیں؟ آپ بھی مہارت سے کام کر رہے ہیں؟
وسعت بھائی نے کہا کہ بھئی مہارت وہارت نہیں ہے، بس۔ ویسے واقعی عجیب بات ہے کہ اب تک میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے وہ ابھی اس قابل نہیں سمجھتے۔ یا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہنسی مذاق ہو رہا ہے۔ میرے کالم میں ایسا ویسا کچھ ہوتا بھی نہیں۔ میں ڈونٹس کو ٹچ ہی نہیں کرتا۔ سیدھی سیدھی بات یہ ہے جو صحافیوں کے سمجھنے کی ہے کہ دنیا کی جو بھی ریاست ہو چاہے ڈیموکریٹک ہو یا نان ڈیموکریٹک، وہ بنیادی آزادیاں کبھی آپ کو پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں دیتی۔ بلکہ وہ تاک میں بیٹھی رہتی ہے کہ کس طرح اور کم کرے۔ کہیں بس چل جاتا ہے، کہیں نہیں چلتا۔
صحافیوں کو یہ جاننا چاہیے کہ کوئی بھی بات کرنے کے ہزار طریقے ہوتے ہیں۔ جیسے راگ صرف سات ہیں تو آپ سوچیں کہ لاکھوں دھنیں کیسے بن جاتی ہیں؟ اسی طرح میں لکھنے کو موسیقی ترتیب دینے جیسا سمجھتا ہوں۔ بنیادی اکشر تو چھبیس ستائیس ہیں۔ ان سے آپ لفظ اور جملے بناتے ہیں۔ اگر آپ اناڑی ہیں تو جملے کا پتھر بنا کر سر پر مار دیں گے، خون نکلے گا۔ لیکن صحافی چاہے تو وہ بھی اندر کی چوٹ لگا سکتا ہے۔ جس طرح ریاست سوفسٹیکیٹڈ ہو رہی ہے، اسی طرح لکھاری کو بھی سوفسٹیکیٹڈ ہونا پڑے گا ورنہ جو زیادہ سوفسٹیکیٹڈ ہے وہ کم سوفسٹیکیٹڈ کو دبا لے گا۔
میں نے انھیں بتایا کہ بعض صحافیوں کے مطابق اسٹیبلشمنٹ چھوٹی مارکیٹ میں زیادہ چینلوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ شور میں کام کی بات کرنے والے کی آواز کھو جائے۔ کیا آپ نے کبھی اس طرح سوچا؟
وسعت بھائی نے کہا کہ اگر یہ بات درست بھی ہے تو میں اس سے نہیں گھبراتا۔ اگر کوئی فرض کرلے کہ عوام گھامڑ ہیں اور ڈھول پیٹنے سے یا ڈھنڈورچی جمع کرنے سے کسی کی آواز دب جائے گی تو میں یہ فرض کرنے والے کو ہرگز ڈسٹرب نہیں کروں گا۔ میں تو کہوں گا، ہاں بھیا، آپ عوام کو گھامڑ سمجھتے رہیں۔ یہ جو دس کروڑ ہیں، جہل کا نچوڑ ہیں، ان کی کھینچ لے زباں۔ جالب کہہ گئے ہیں نا۔ لیکن میں گھامڑ نہیں سمجھتا عوام کو۔
دوسری بات یہ ہے کہ کوے اگر سو بھی جمع ہوجائیں تو اگر کسی ڈال پر فاختہ بیٹھی ہے تو کیا وہ نظر آنا بند ہوجاتی ہے؟ مجھے تو کوئی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ بلکہ جتنی زیادہ تاریکی ہوگی، اس میں سفید نکتہ اور واضح نظر آئے گا۔
میں نے سوال کیا کہ ایک دن مطیع اللہ جان کو ان کے چینل نے برخاست کیا اور اگلے دن مرتضیٰ سولنگی کو استعفا دینا پڑا۔ اور چینلوں سے بھی درجنوں افراد نکالے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں صحافی کیوں تقسیم ہیں؟ چار چار پی ایف یو جے بنی ہوئی ہیں۔
وسعت بھائی نے کہا کہ مجھے سولنگی صاحب کے بارے میں علم نہیں۔ لیکن مطیع اللہ جان جس چینل میں تھے، اسے مالکان بند کر رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صورتحال ان کے قابو سے باہر ہورہی ہے۔ وہ خسارہ برداشت نہیں کر پا رہے اس لیے سبھی کو فارغ کر رہے ہیں۔
رہی بات صحافیوں کے ایکے کی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب اتنے سارے میڈیم نہیں ہوتے تھے، صرف پرنٹ میڈیا تھا۔ اس میں گنے چنے لوگ ہوتے تھے۔ سب ایڈیٹر ہونا یا رپورٹر ہونا ٹیکنیکل کام تھا۔ ان میں ایکا تھا۔ پھر مالکان کا بھی مختلف معاملہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میرا کھوکھا نہیں چل رہا یا چائے خانہ نہیں چل رہا تو چلو میں اخبار نکال لیتا ہوں۔ جن کا کام تھا، وہی کر رہے تھے۔ اسی لیے آپ دیکھیں کہ ساٹھ ستر سال میں جو پبلشنگ ہاؤس تھے، وہ آج بھی وہی کام کر رہے ہیں۔ ہوا یہ کہ جو ہڑاہوڑی مچی ہے، جو غدر ہوا ہے، یہ پچھلے اٹھارہ سال کی دین ہے۔ کسی کرائی ٹیریا کے بغیر، کچھ طے کیے بغیر چینلوں کے لائسنس دے دیے گئے۔
اگر میرا بزنس تھا اور سالانہ ایک ارب روپے کا ٹرن اوور تھا تو میں آپ کی خوشامد کرتا تھا کہ بھیا، میری خبر چھاپ دے یا اپنے چینل پر چلادے۔ آپ کے بھی سو نخرے ہوتے تھے۔ میں نے سوچا کہ ایک ارب کے بزنس میں سے دس کروڑ الگ کرکے کیوں نہ میں بھی اپنا چینل کھول لوں۔ باقی بچے نوے کروڑ، اتھارٹی کی اتھارٹی، مشہوری کی مشہوری، اشتہار اپنے چینل پر چلیں گے۔ حکومت اور ریاست عزت کرے گی۔ میری ٹور ہوجائے گی۔ میں باقی دس کام بھی سیدھے کر سکوں گا۔
اب جیسے چینل آگئے ہیں، نہ تو میں ان میں فٹ ہوسکتا ہوں اور نہ وہ فٹ ہوں گے۔ کارکنوں کی جو نئی فوج آئی ہے، میں اسے کہتا ہوں، برائلر جنریشن آف میڈیا پرسنز۔ میں انھیں جرنلسٹ بھی نہیں کہتا۔ ہم جیسی دو چار دیسی مرغیاں رہ گئی ہیں کچرے پر پلنے والی جو ابھی ادھر ادھر گھوم رہی ہیں۔ لیکن یہ جو برائلر جنریشن ہے، اس نے ٹیک اوور کر لیا ہے۔ اس کا جو کام ہے، وہ فوکسڈ ہے۔
ایڈیٹر کو بہت عرصہ پہلے کھڑکی سے باہر پھینکا جا چکا ہے۔ مالک نے کہا کہ یہ ایڈیٹر کیا کرتا ہے؟ اس کے پیسے بھی بچاؤں اور خود ایڈیٹر بن جاؤں۔ اب پوری صورتحال بدل گئی ہے۔ اس میں ہم اگر ہم ٹریڈیشنل عینک سے دیکھیں گے کہ آزادی صحافت اور صحافتی تنظیمیں اور کمٹمنٹ اور نثار عثمانی اور منہاج برنا کہاں گئے؟ تو بھیا ہمیں اپنی عینک کا نمبر بدلوانے کی ضرورت ہے۔
میں نے پریشانی کا اظہار کیا کہ ایک چینل کے بند ہونے کی خبر آپ نے سنادی۔ دوسرے بھی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ خدانخواستہ کیا ہم کچھ مزید چینل اور اخبارات بند ہوتے ہوئے دیکھیں گے؟
وسعت بھائی نے کہا کہ دیکھیں، جو خالص کاروباری نیت سے آئے ہیں وہ تو ہوا کا رخ دیکھیں گے۔ اگر مشکلات قابل برداشت ہوئیں تو ٹکے رہیں گے۔ مشکلات زیادہ ہوئیں تو وہ پتلی گلی سے نکل لیں گے۔ مسئلہ ان کا ہے جو خاندانی گویے ہیں۔ اصل ٹارگٹ وہی ہیں کہ انھیں گھر تک محدود کیا جائے۔ ان کی آواز ایک کمرے تک رہ جائے تو اور اچھا ہے۔ یہ خاندانی گویے بہت زیادہ نہیں۔ چار پانچ ہی ہیں۔ انھیں سیٹ کرلیا جائے گا۔
یہ جو مسئلہ ہے سرویلئنس یا سیلف سنسرشپ کا، مداخلت کا عمل ہے، صحافی نما مخلوق کو کری ایٹ کرنے کا عمل ہے اور جینیٹک انجینئرنگ ہے، وہ بھیا ہم جیسے پرانے انداز کے صحافیوں کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مجھے حالات یوں لگ رہے ہیں کہ پہلے صحافی کہتے تھے، ’ہم بھی دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘۔ اب ریاست گارہی ہے، ’ہم دیکھیں گے‘۔
نوٹ: وائس آف امریکا اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورتحال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے.