چین کے صدر شی جنپنگ کا دورہ امریکہ منگل سے شروع ہوا اور اس کے آغاز پر انھوں نے سائبر جرائم اور اس سے جڑے معاملات کو سنجیدگی سے لینے پر زور دیا ہے۔
امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی طرف سے پوچھے گئے سوالوں پر صدر شی کے جوابات منگل کو شائع ہوئے جن میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت سائبر سکیورٹی کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور تجارتی راز چرانے والے ہیکروں سمیت سائبر جرائم میں ملوث افراد کو قوانین اور بین الاقوامی میثاقوں کے مطابق سزا دی جانی چاہیے۔
صدر شی کا کہنا تھا کہ چین خود ہیکنگ کا شکار ہو چکا ہے اور انھوں نے تجارتی نوعیت کی معلومات کی چوری میں اپنی حکومت کے کسی بھی طرح ملوث ہونے کو مسترد کیا۔
"چین کی حکومت کسی بھی طرح کے تجارتی رازوں کی چوری میں ملوث نہیں اور نہ ہی ایسے کسی فعل میں چینی کمپنیوں کے ملوث ہونے کی حمایت کرتی ہے۔‘‘
منگل کو امریکی کی قومی سلامتی کے مشیر سوزن رائس نے متنبہ کیا تھا کہ چین بیجنگ کے تعاون سے سائبر جاسوسی امریکہ اور چین کے تعلقات میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں اور یہ جاسوسی بند کی جائے۔
صدر شی نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ وہ سائبر جرائم کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ تعاون کو بڑھانے پر تیار ہیں۔
انھوں نے جنوبی بحیرہ چین میں متنازع جزائر کے معاملے کا بھی تذکرہ کیا جنہیں چین نانشا جب کہ دیگر ممالک سپارٹلی جزائر کہتے ہیں۔
ان جزائر کی ملکیت کے دعویدار فلپائن، ویتنام، ملائیشیا، برونائی اور تائیوان بھی ہیں جب کہ چین کا اصرار ہے کہ یہ جزیرے قدیم زمانے سے اس کا حصہ ہیں۔
چین نے ان میں جزائر والے علاقوں میں تعمیرات بھی شروع کر رکھی ہیں جن پر امریکہ سمیت مختلف ملک تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
صدر شی کا کہنا تھا کہ "ہمارے نانشا جرائز میں تعمیرات کا نہ تو کوئی دوسرا ملک ہدف ہے اور نہ یہ کسی پر اثرانداز ہوں گی اور اس کا بلا جواز مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے۔"
ان نے کہا کہ اقتصادی و تجارتی لحاظ سے چین اور امریکہ دنیا کے دو بڑے ملک ہیں اور اس معاملے پر ایک دوسرے کے مفادات اور تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے۔