اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ یمن کے تنازعے میں دونوں فریقوں نے ایک ہزار سے زائد زیر حراست افراد کو رہا کیا ہے جو ایک روز میں قیدیوں کا سب سے بڑا تبادلہ ہے۔ یمن میں تنازعہ آرائی کا آغاز 2015 میں ہوا تھا.
یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن گرفتھ نے اردن سے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یمن کے لئے امید کی ایک کرن نظر آئی ہے اور انھوں نے متعلقہ فریقوں اور ان کی قیادت کو سراہا ہے کہ انہوں نے تعمیری انداز میں مذاکرات کرنے کے عزم کی پاسداری کرتے ہوئے کامیابی سے اس سمجھوتے کو طے کیا ہے جس کی تکمیل گزشتہ ماہ سوئٹزر لینڈ میں ہوئی۔
سفارت کاروں کے مطابق 1081 قیدیوں کو رہا کیا گیا, جن میں بیشتر یمنی تھے۔ کچھ سعودی شہریوں کو بھی واپس بھیجا گیا۔ رہا ہونے والوں میں کوئی خاتوں شامل نہیں۔
ابھی بھی متحارب گروہوں کی تحویل میں ہزاروں قیدی ہیں تاہم ایک روز میں یہ قیدیوں کی سب سے بڑی تعداد کی رہائی ہے۔ ریڈ کراس ان قیدیوں کی منتقلی کے لئے غیر جانبدار فریق کے طور پر کام کر رہی ہے۔
یمن کے لئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن گرفتھ گزشتہ سات ماہ سے متحارب فریقوں کے درمیان مسئلے کے حل کے لئے سفارت کاری کر رہے ہیں اور انہوں نے رپورٹروں کو بتایا ہے کہ متحارب فریق متنازعہ امور کو حل کرنے کی جانب پیش رفت کر رہے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں تصفیہ ہو سکے۔
ریڈ کراس کی عالمی تنظیم قیدیوں کے تبادلے میں ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کر رہی ہے۔ تنظیم قیدیوں کا طبی معائنہ بھی کر رہی ہے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ کیا وہ کرونا وائرس کی زد میں تو نہیں آئے اور آیا وہ سفر کے قابل بھی ہیں یا نہیں۔
تاہم کئی مہینوں بعد، سیاسی محاذ سے اچھی خبریں آنے کے باوجود لاکھوں یمنیوں کیلئے صورتحال اچھی نہیں ہے، کیونکہ جلد ہی انہیں قحط کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انسانی امداد کے امور کے اقوام متحدہ کے چیف، مارک لاک کوک نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ یمن کو قحط سے بچانے کیلئے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے جس سے ماہرین کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
یمن کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے مارٹن گرفتھ، گزشتہ سات مہینوں سے سعودی پشت پناہی والی یمنی حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ ہوثی باغیوں کو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے پر قائل کر رہے ہیں، جس سے ملک بھر میں جنگ بندی ہو جائے گی، معاشی اور انسانی ہمدردی اور فلاح سے متعلق اقدامات اتھائے جا سکیں گے اور سیاسی عمل کا دوبارہ آغاز ہو گا۔
گرفتھ نے اجلاس کے بعد، رپورٹروں کو بتایا کہ متنازع معاملات کو ختم کرنے کیلئے، دونوں فریق نزدیک آتے جا رہے، لیکن ہمیں ایک معاہدے پر دستخط کی ضرورت ہے۔