اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں نے جمعرات کو کہا ہے کہ شدت پسند تنظیم داعش قتل، جنسی غلامی اور دیگر جرائم کی ایک منظم مہم کے ذریعے شام اور عراق میں یزیدیوں کی نسل کشی کر رہی ہے جو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
شام پر اقوام متحدہ کے کمیشن آف انکوائری نے جمعرات کو اپنی رپورٹ جاری کی جس میں داعش کی طرف سے یزیدی آبادی کے خلاف منظم مہم کی تفصیلات بتائی گئیں۔
درجنوں متاثرہ افراد کے انٹرویوز پر مبنی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ داعش عراق اور شام میں یزیدیوں کو اگست 2014 سے منظم طریقے سے پکڑ رہی ہے اور ایک مہم کے ذریعے ان کی ’’شناخت ختم کرنے‘‘ کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے طریقے 1948 جینوسائیڈ کنونشن میں دی گئی نسل کشی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔
کمیشن آف انکوائری کے چیئرمین پاؤلو پنہائرو نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’داعش نے اپنی تحویل میں ہر یزیدی عورت، بچے اور مرد کو انتہائی بہیمانہ ظلم کا نشانہ بنایا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’نسل کشی کا جرم سلامتی کونسل سمیت سیاسی سطح پر زیادہ پرزور کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔‘‘
کمیشن کے رکن ویٹٹ منٹاپون نے کہا کہ غیرملکی جنگجوؤں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے والے کچھ ممالک کے حکام سے ’’ان جہگوں، خلاف ورزیوں اور ان کے مرتکب افراد کے بارے میں تفصیلی معلومات‘‘ کا تبادلہ شروع کیا جا چکا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ عورتوں کو جنسی غلاموں کے طور پر رکھا جاتا ہے جبکہ لڑکوں کو جنگجو بننے کی تربیت دی جاتی ہے۔
رپورٹ میں ایسے کیسوں کا حوالہ دیا گیا جن میں عورتوں نے داعش کے جنگجوؤں کو فروخت کیے جانے سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی اور جن عورتوں نے فرار ہونے کی کوشش کی انہیں شدید جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ چار لاکھ افراد پر مشتمل یزیدی برادری کے افراد مکمل طور پر بے گھر ہوئے، پکڑے گئے یا مار دیئے گئے۔
کمیشن نے سفارش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کیس پر کارروائی کرتے ہوئے اسے ممکنہ طور پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیروی کے لیے بھیجے اور داعش کی تحویل میں اب بھی موجود کم از کم 3,200 عورتوں اور بچوں کو بچائے۔