امریکی وزیرِ خزانہ جینٹ ییلن نے پیر کے روز کہا ہے کہ امریکہ بھارت کی قابلِ تجدید توانائی کی جانب منتقلی میں مدد دینے کے لیے اس ملک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
ییلن نے جی20 کی سائیڈ لائن پر بھارت کی وزیرِ خزانہ نرملا ستھرامان سے ملاقات کی۔
انہوں نے کہا،" ہم سرمایہ کاری کے ایک پلیٹ فارم پر بھارت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں جہاں سرمایہ کم لگے اور نجی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو تاکہ بھارت کا توانائی میں تبدیلی کا عمل تیز ہو سکے۔"
ییلن کا بھارت کا موجودہ دورہ وزیرِ اعظم مودی کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد ہو رہا ہے۔ نو ماہ میں ییلن کا بھارت کا یہ نواں دورہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین سے کشیدگی کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات فروغ پا رہے ہیں۔
دورے کا مقصد بھارت کے ساتھ ہمیشہ بڑھتے ہوئے تعلقات کو مزید گہرا کرنا، ترقی پذیر ملکوں میں جو معاشی دباؤ کا شکار ہیں، قرضوں کی تشکیلِ نو پر زور دینا اور جدید عالمی ترقیاتی بنکوں کو مائل کرنا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کو مرکزی نکتہ بنائیں۔
بھارت کے روس کے ساتھ طویل المدت تعلقات کریملن کے یو کرین پر حملے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روس پر اقتصادی پابندیوں کے باوجود بھی اسی طرح برقرار ہیں۔
بھارت نے روس کو سزا دینے کی کوششوں میں حصہ نہیں لیا اور گروپ آف سیون کے روسی تیل کی قیمتوں پر حد مقرر کرنے کے باوجود، جو بظاہر روس کی معیشت کو سست کرنے کا باعث ہوئی، بھارت نے روس کے ساتھ اپنی توانائی کی تجارت جاری رکھی ہے۔
ییلن نے کہا کہ یوکرین میں جنگ کا خاتمہ،" اخلاقی طور پر اولین اور اہم ترین ترجیح ہے مگر عالمی معیشت کے لیے یہ واحد بہترین قدم ہے جو ہم اٹھا سکتے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ امریکہ یوکرین کی جنگ کے لیے روس کو مطلوبہ ٹیکنالوجیز اور فوجی سازوسامان تک روس کی رسائی کو روکتا رہے گا۔
ییلن نے بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کے تناظر میں کہا کہ امریکہ سپلائی چینز میں لچک میں اضافے کے لیےدوستانہ تعلقات کی اپنی حکمت عملی میں بھارت کو ایک ناگزیر شراکت دار تصور کرتا ہے۔
ییلن نے مزید کہا کہ امریکہ کی نجی کمپنیاں اپنی پیداوار اور پیداواری اشیا کو بھارت سے امریکہ برآمد کرنے کے لیے بھارت کو ایک بہترین ملک خیال کرتی ہیں۔
ییلن نے کہا کہ چین کی پیداوار میں سستی کا بہت سے دیگر ملکوں کی پیداوار پر اثر پڑا ہے۔
انہوں نے کہا،" میں نے چین کے دورے میں چینی عہدیداروں سے اس پر بات کی ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ چینی یہ بتانےکے لیے بے چین ہیں کہ ان کا کاروباری ماحول سب کے لیے کھلا ہے۔ وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کی خواہش موجود ہے۔"
ییلن کا بھارت کا دورہ اس کے فوراً بعد ہو رہا ہے جب انہوں نے ایک ہفتہ چین میں اس کی وزارتِ خزانہ کے عہدیداروں کے ساتھ باہمی تجارتی حدود اور قومی سلامتی کی تشویش پر بات چیت میں صرف کیا ہے۔
ہیرلڈ فرچگاٹ روتھ، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں ایک سینئیر ریسرچ فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ییلن کا بھارت کا دورہ ایک قدرتی طور پر تشکیل پاتے اتحاد کی عکاسی ہے۔
انہوں نے کہا،"بھارت کی چین کے ساتھ خاصی کشیدگی ہے۔ ان کے سرحدی تنازعے مسلسل موجود ہیں اور یہ بھی کہ بھارت چاہتا ہے اور ایسا کر بھی چکا ہے کہ وہ بحرِ ہند میں بحری قوت بن جائے جبکہ یہ وہی بحری علاقہ ہے جہاں چین بھی فروغ چاہتا ہے۔"
ییلن کچھ وقت ہنوئی، ویت نام میں بھی صرف کریں گی جہاں وہ سپلائی چین سے متعلق اعتماد، صاف توانائی کی جانب منتقلی اور اقتصادی طور پر لچک کے دیگر امور پر بات چیت کریں گی۔
(اس خبر میں کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)