اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ یمن میں جاری لڑائی میں گزشتہ دو سالوں کے دوران دس ہزار شہری مارے جا چکے ہیں جب کہ عالمی تنظیم یہاں امن معاہدے کے نفاذ کے لیے کوشاں ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی اسماعیل ولد شیخ احمد یمن میں ہیں جہاں انھوں نے صدر عبدالربو منصور ہادی سمیت اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقاتوں میں اپریل میں طے پانے والے معاہدے کی بحالی کی درخواست کی۔
شیخ احمد کا کہنا تھا کہ "یمن کی سیاسی قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو مزید نقصان سے بچائے، اپنے ملک کے مستقل کو محفوظ بنائے اور پرامن حل تلاش کرے۔ موجودہ سیاسی لائحہ عمل ہر روز اموات اور تباہی کا باعث بن رہا ہے۔"
خصوصی ایلچی کا کہنا تھا کہ یمن میں اس ابتر صورتحال کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے کہ تمام فریقین معاہدے پر عمل کرتے ہوئے امن مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔
ولد شیخ احمد رواں ہفتے حوثی باغیوں کے نمائندوں سے ملاقات کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دو سال قبل حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عرب کی زیر قیادت یمن میں شروع ہونے والی لڑائی میں دس ہزار کے لگ بھگ شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
اتحادی افواج نے فضائی کارروائیوں کے علاوہ زمینی فوج بھی بھیجی تھی جس کی حوثی باغیوں سے خونریز جھڑپیں ہو چکی ہیں۔
فضائی کارروائیوں کی وجہ سے دارالحکومت صنعا کا تقریباً سارا علاقہ ملیا میٹ ہو چکا ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے 2014ء میں صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عرب دنیا کے اس پسماندہ ترین ملک میں مستقل جنگ بندی اور ایک جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کی جانے والی اب تک کی تمام کوششیں رائیگاں رہی ہیں۔
عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق یمن میں 80 فیصد شہریوں کو خوراک اور ادویہ کی اشد ضرورت ہے۔