یمن کی جنگ اب تک تقریباً 1400 بچوں کی جانیں لے چکی ہے اور اس جنگ کے نتیجے میں لگ بھگ 2000 اسکول بند کرنے پڑے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے ادارے نے بدھ کے روز بتایا کہ بند کیے جانے والے کئی اسکول بے گھر ہونے والے خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
یمن کے لیے یونیسیف کے نمائندے مریٹکسل ریلانو نے کہا ہے کہ یہ اس چیز کی تازہ ترین مثال ہے کہ یمن میں شہری آبادیوں پر حملے کس طرح بچوں کو ہلاک اور زخمی کر رہے ہیں۔
ریلانو کا کہنا ہے کہ مارچ 2015 میں یمن میں تنازع شروع ہونے کے بعد سے ہلاک ہونے والے بچوں کے علاوہ 2140 بچے زخمی بھی ہوئے۔
یمن میں سعودی عرب کی فورسز ایران کی حمایت یافتہ ہوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہی ہیں۔
بچوں کے عالمی ادارے کے نمائندے کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچوں کی تعداد اس سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔
منگل کے روز دارالحکومت صنعا کے مضافات میں ایک اسکول کے قریب فضائی حملوں کے بعد ایک لڑکی ہلاک اور چار سے زیادہ زخمی ہو گئیں۔
ریلانو نے دونوں فریقوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بچوں کے تحفظ کے لیے شہری علاقوں پر حملے بند کر دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکولوں کو تمام وقت کے لیے امن کے علاقے قرار دیا جائے ۔ وہ ایک ایسا محفوظ مقام ہونا چاہیے جہاں بچے تحفظ کے إحساس کے ساتھ پڑھ سکیں، کھیل سکیں اور نشوونما پا سکیں۔ اسکول جانے پر بچوں کی زندگیوں کو کبھی خطرے میں نہیں ڈالا جانا چاہیے۔