یمن کے صدر علی عبداللہ صالح نے کہا ہے کہ جب تک حزبِ مخالف سے جا ملنے والے ایک سینئر فوجی جنرل اور ایک مال دار قبائلی سربراہ جیسے ان کے اہم مخالفین ملک میں قوت اور اثر و رسوخ کے حامل ہیں، وہ اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
امریکی اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' اور جریدے 'ٹائم' کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں یمن کے صدر کا کہنا ہے کہ یمن کی پڑوسی خلیجی ریاستوں کی جانب سے ملک میں اقتدار کی متنقلی کے منصوبے کے مسودے میں شامل وہ الفاظ حذف کیے جانے چاہئیں جن میں یمن کے بحران کا ذمہ دار "تمام عناصر" کو قرار دیا گیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ جب تک باغی فوجی جنرل محسن الاحمر اور مواصلات کی صنعت کی ایک بڑی کاروباری شخصیت اور سیاست دان حامد الاحمر، جن کے ایک بھائی یمن کے سب سے مضبوط قبائلی اتحاد کے سربراہ ہیں، مستقبل کے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہیں، وہ ( صدر صالح) اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔
یمن کے صدر نے خبردار کیا کہ اگر ان کے استعفیٰ کے بعد بھی مذکورہ دونوں افراد کی حیثیت برقرار رہی تو یہ "انتہائی خطرناک" ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک خانہ جنگی کی طرف جاسکتا ہے۔
انٹرویو کے دوران صدر صالح نے الزام عائد کیا کہ انہیں صدارت سے برطرف کرانے کے لیے ان کے سیاسی مخالفین نے ملک میں جاری احتجاجی تحریک کو ہائی جیک کرلیا ہے۔
صدر صالح نے اندیشہ ظاہر کیا کہ جنرل محسن اور حامد کا قبیلہ دارالحکومت صنعاء میں واقع صدارتی محل پر رواں برس جون میں کیے گئے حملے میں ملوث ہوسکتا ہے جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ صدر صالح کو اس حملے کے بعد علاج کی غرض سے پڑوسی ملک سعودی عرب منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ تین ماہ گزارنے کے بعد گزشتہ ہفتے وطن واپس لوٹے ہیں۔
یمن کے صدر نے کہا کہ ان کی حکومت امریکہ کی جانب سے حملے کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کر رہی ہے جو رواں ماہ کے اختتام تک منظرِ عام پر آنے کی توقع ہے۔
واضح رہے کہ صدر صالح کی حامی سکیورٹی فورسز اور حزبِ مخالف کے حامی قبائلی جنگجوؤں کے درمیان جھڑپوں میں گزشتہ دو ہفتوں سے شدت آگئی ہے۔ بدھ کو قبائلیوں نے دارالحکومت کے نزدیک ایک سرکاری فوجی طیارہ بھی مار گرایا تھا۔
قبل ازیں یمن کے وزیرِ خارجہ نے ملک میں جاری حالیہ بدامنی کا ذمہ دار حزبِ مخالف کی تحریک کی جانب سے 2006ء کے صدارتی انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کیے جانے کو ٹھہرایا تھا۔
وزیرِ خارجہ ابو بکر القربی نے منگل کو کہا تھا کہ صدر صالح اقتدار اپنے نائب کو منتقل کرنے سے متعلق تعطل کا شکار منصوبے پر عمل درآمد میں یکسو ہیں۔
صدر صالح رواں برس اپریل سے اب تک مجوزہ منصوبے سے تین بار اتفاق کرچکے ہیں تاہم ہر بار معاہدے پر دستخط سے قبل وہ منحرف ہوجاتے ہیں۔