یمن کی سیاسی ہلچل سے سعودی عرب کی ہمدردی عجیب سی بات لگتی ہے ۔ صنعا میں جمہوریت کی تحریک کے ایک ممتاز کارکن کہتے ہیں کہ یمنی نوجوان سعودی بادشاہت کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
Adel Abdu Arrabeai کہتے ہیں کہ چونکہ سعودی عرب کسی جمہوری اور سول مملکت کا نمونہ نہیں ہے اس لیے اس کے ساتھ کسی قسم کی ذہنی ہم آہنگی نا ممکن ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ تاثر بھی عام ہے کہ صدر علی عبد اللہ صالح سعودی عرب کی حمایت پر تکیہ کرتے رہےہیں۔
ٹام فن صنعا میں فری لانس صحافی ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’عرب موسم بہار کی تحریکوں کے مقابلے میں یمن کے حالات مختلف رہے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ علی عبداللہ صالح کو اب بھی یقین ہے کہ انہیں کم از کم سعودی عرب کی حمایت حاصل ہے، جو بہت طاقتور علاقائی طاقت ہے۔‘‘
عرب موسمِ بہار کے پورے عرصے میں، سعودی عرب کی ترجیح یہی تھی کہ حالات جوں کے توں رہیں۔ سعودی عرب نے تیونس اور مصر کے صدر کی حمایت کی، جن کا تختہ الٹا جا چکا ہے، اور بحرین میں عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے ٹینک بھیجے۔
لیکن یمن کے معاملے میں سعودی عرب اور اس کے ہمسایہ خلیج کے ملکوں نے مختلف رویہ اپنایا ہے۔ گلف کو آپریشن کونسل نے ایک منصوبہ پیش کیا جس کے تحت صدر صالح اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاتے اور اقتدار پُر امن طریقے سے منتقل ہو جاتا۔
مسٹر صالح کہتے ہیں کہ وہ اصولاً اس منصوبے سے متفق ہیں، لیکن وہ اس پر دستخط نہ کرنے کے لیئے کوئی نہ کوئی وجہ تلاش کر لیتے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر سعودی عرب یمنی لیڈر کو ہٹانے میں سنجیدہ تھا، تو اس نے ایک بڑا اچھا موقع گنوا دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر صالح قاتلانہ حملے کے بعد، بحالی کے لیے ریاض گئے تھے، اور سعودی عرب کو چاہیئے تھا کہ انہیں وہیں روک لیتا۔
لیکن امریکن انسٹیٹیوٹ فار یمنی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر اسٹیفن اسٹیئنبیسر کہتے ہیں کہ سعودیوں نے مسٹر صالح کو سعودی عرب میں روک لینے کی قانونی حیثیت کے بارے میں تو سوچا ہوگا لیکن انہیں گذشتہ مہینے میں یمن واپس جانے کی اجازت دینے میں اور چیزیں بھی ان کے مد نظر رہی ہوں گی۔
وہ کہتے ہیں’’انھوں نے شاید محسوس کیا کہ صرف صدر صالح ہی ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد کو روک سکتے ہیں، خاص طور سے ان کی واپسی کے دن سے کچھ پہلے تک، اور بیشتر لوگ اب بھی ان پر اعتبار کرتے ہیں کہ وہ اقتدار میں تبدیلی کا کوئی سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔‘‘
گلف کو آپریشن کونسل نے جو تجویز پیش کی ہے اس سے نہ صرف طالب علم کارکنوں کا شک و شبہ دور ہو سکتا ہے بلکہ یمن کے بارے میں سعودی عرب کی اس دلیل کا جواب بھی مل سکتا ہے کہ اس غریب ہمسایہ ملک میں تھوڑا بہت عدم استحکام کوئی بری چیز نہیں کیوں کہ اس طرح وہاں جوڑ توڑ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔
لیکن یمن میں عدم استحکام حالیہ برسوں میں مصیبت بن گیا ہے ۔ جب سعودی عرب نے اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کو نکالا تو وہ یمن میں اپنے ساتھیوں سے آ ملے اور جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کی تشکیل کر لی۔
سیاسی تجزیہ کار اسٹیئنبیسر کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ماضی میں ایک کمزور ہمسایے کی موجودگی سعودیوں کے لیے پُر کشش رہی ہو۔ لیکن اب حالات مختلف ہیں۔’’اس مرحلے پر سعودی سمجھتے ہیں کہ یمن کا مضبوط ہونا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، اگر وہ واقعی اسے کوئی مسئلہ سمجھتے ہیں، کیوں کہ اب اس سے کہیں بڑے مسئلے موجود ہیں۔ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کہیں زیادہ مشکل مسائل ہیں اور شاید ان کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔‘‘
سعودی عرب کو صرف یہ فکر نہیں ہے کہ القاعدہ ملک میں بد امنی سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ جزیرہ نمائے عرب میں ایران بھی اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شیعہ ایران اور یمن میں ان کے ہم مذہب گروپوں کے درمیان ، خاص طور سے شمال میں باغی Houthis کے درمیان رابطے موجود ہیں۔
یمن میں بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے، لیکن اسٹیئنبیسر کہتے ہیں کہ اگر اگر ایسا کوئی خطرہ در پیش ہوا، تو سعودی عرب کی کٹر سنی بادشاہت اور دوسرے ممالک کارروائی کرنے میں بالکل پس و پیش نہیں کریں گے۔’’میرے خیال میں خلیج کے ملکوں کو اس بارے میں بہت تشویش ہو گی، اور اگر یمن میں ایران کی طرف سے کوئی مداخلت ہوئی تو یہ ملک سعودی عرب کی حمایت سے ضرور کارروائی کریں گے ۔‘‘
ہو سکتا ہے کہ جمہوری یمن سعودی عرب کی مطلق العنان بادشاہت کے لیے بہترین انتخاب نہ ہو، لیکن بہت سے سعودیوں کی نظر میں، اس کا متبادل کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔