رسائی کے لنکس

امریکی حکومت پر یمن کی صورت حال میں بہتری لانے پر زور


امریکی حکومت پر یمن کی صورت حال میں بہتری لانے پر زور
امریکی حکومت پر یمن کی صورت حال میں بہتری لانے پر زور

یمن میں سیاسی اور سکیورٹی کی صورت حال بڑی تیزی سے غیر یقینی ہوتی جا رہی ہے ۔ ان حالات میں امریکہ میں بعض گروپ اور تجزیہ کار امریکی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ صورتِ حال کی بہتری کے لیے اقدام کرے۔

امیتابھ پال امریکہ میں رہنے والے ان بہت سے تجزیہ کاروں میں شامل ہیں جنھیں اس بات پر مایوسی ہوئی ہے کہ امریکی حکومت نے یمن کو زیادہ پُر امن اور جمہوری حل کی طرف لے جانے کے لیے زیادہ مؤثر اقدامات نہیں کیے ہیں۔ پال نے حال ہی میں مسلمان دنیا میں پُر امن تحریکوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے Islam Means Peace، یعنی اسلام کا مطلب ہے امن۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر امریکی انتظامیہ کی طرح اوباما انتظامیہ کو بھی ایک طرف اپنے اسٹریٹجک اور جغرافیائی و سیاسی مفادات اور دوسری طرف انسانی حقوق اور جمہوریت کے بارے میں اپنی تشویش کے درمیان توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔ لہٰذا دو محاذوں پر بیک وقت مصروف رہنے کا نتیجہ اس الجھے ہوئے اور غیر منطقی طریق کار کی صورت میں نکلتا ہے۔’’

پال کہتےہیں کہ عرب دنیا کے موسم بہار کی احتجاجی تحریکوں میں، یمن کی صورت حال سب سے زیادہ مشکل اور خطرناک ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘‘دوسرے عرب ملکوں کے مقابلے میں یمن میں بہت زیادہ اسلحہ پھیلا ہوا ہے اور یمن میں القاعدہ کی موجودگی، کسی بھی دوسرے عرب ملک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہاں حالات جلد ہی خراب ہو جائیں گے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اس میں اتنا وقت کیوں لگا۔’’

Faris Almatrahi انسانی حقوق کے کارکن ہیں اور Yemeni Youth Abroad for Change نامی گروپ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے گذشتہ تین عشروں کے دوران صدر علی عبداللہ صالح کو اپنا اتحادی بنائے رکھا جو صحیح فیصلہ نہیں تھا۔ نوجوانوں کے پُر امن احتجاج کے باوجود اور جمعہ کو صدارتی کمپاؤنڈ پر راکٹ کے حملے کے باوجود جس میں وہ زخمی ہوگئے، انھوں نے اقتدار چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ ALMATRAHI کے مطابق ‘‘یمن کے صدر نے قیادت کے فقدان کی وجہ سے یمن میں ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے کہ یمن میں انتہا پسندی کے فروغ کے لیے سازگار حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ وہاں شدید غربت ہے اور جو خراب حالات ہیں انھیں یمنی حکومت اور امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ امریکہ نے اتنی بد عنوان حکومت کی حمایت کی ہے۔’’

Almatrahi نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کو یمن کی حکومت کے خلاف پابندیاں عائد کرنی چاہیئں۔

یمن میں ایک سابق امریکی سفیر، Edmund J. Hull نے بھی اپیل کی ہے کہ یمن پر مخصوص پابندیاں لگائی جائیں ، صدر صالح سے استعفے کا پر زور مطالبہ کیا جائے اور جلد انتخابات کی تائید کی جائے۔

امریکی حکومت پر یمن کی صورت حال میں بہتری لانے پر زور
امریکی حکومت پر یمن کی صورت حال میں بہتری لانے پر زور

Yemen Peace Project کی ایک ڈائریکٹر، عالیہ نعیم کہتی ہیں کہ صورت حال سخت تشویش ناک ہوتی جا رہی ہے۔ فوج سے منحرف ہونے والے لوگ جلد ہی قبائلی گروہوں سے آ ملیں گے، اور بیمار صدر پر مسلح دباؤ میں اضافہ ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘ایک چیز جس سے حالات بہت زیادہ خراب ہو سکتے ہیں، اس کا تعلق علی محسن سے ہے جو فوج کے اس حصے کے لیڈر ہیں جو مارچ میں، احتجاجیوں کے پہلے بڑے قتل عام کے بعد، حکومت سے منحرف ہو گیا تھا۔ اب تک فوج کا یہ حصہ اس تنازعے میں پوری طرح شامل نہیں ہوا ہے۔ اگر علی محسن اس فوجی تصادم میں شامل ہو گئے، تو یمن میں صحیح معنوں میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی جس سے مفر ممکن نہیں ہوگا۔’’

عالیہ نعیم کا گروپ یمن کے احتجاجوں میں زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے کے لیے فنڈز جمع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے منتخب امریکی نمائندوں کے نام خط لکھنے کی ایک مہم بھی چلائی ہے تاکہ امریکہ حکومت پر زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔

ادھر، صدر براک اوباما نے اس ہفتے انسداد ِ دہشت گردی کے مشیر، John Brennan کو یمن کی صورت حال پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے عہدے داروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لیے بھیجا ہے۔ جمعے کے روز وہائٹ ہاؤس نے صبر و تحمل، پر امن انتقالِ اختیارات، اور یمن میں بے معنی تشدد کے خاتمے کی اپیل کی۔

XS
SM
MD
LG