پورے یمن میں مظاہرین صدر صالح کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بے تحاشا کرپشن اور شدید بے روزگاری سے تنگ آ چکے ہیں۔
ایک نوجوان نے بتایا کہ اس نے 2001ء میں ملازمت کی درخواست دی تھی لیکن وہ اب تک بے روزگار ہے۔
ایک اور نوجوان نے کہا کہ یمن میں اقتصادی حالات اتنے خرا ب ہیں کہ دہشت گردی کے لیے بڑی سازگار فضا پیدا ہو گئی ہے۔
لیکن کارنیگی انڈاؤمینٹ فار انٹرنیشنل پیس کے ایک ماہر، Christopher Boucek کہتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر صدر صالح کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ یمن میں دہشت گردی کے امکانات اور یہ اندیشہ ہے کہ یمن کہیں ایک ناکام ریاست میں تبدیل نہ ہو جائے۔ ان کے مطابق ’’میرا خیال ہے کہ عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ صدر صالح نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں بلکہ ان میں یمن کو ناکام ریاست بننے سے بچانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔‘‘
امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے دوسرے ملکوں میں حکومت میں تبدیلی کے مطالبات کی تائید کی ہے لیکن یمن میں نہیں۔ امریکہ محکمۂ خارجہ کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری Janet Sanderson کا کہنا ہے کہ’’ہم ایک پُر امن، مستحکم اور متحد یمن کی حمایت کرتے ہیں، اور ہم اس اصول کے حامی ہیں کہ تمام سیاسی عناصر کے درمیان مذاکرات ہوں۔ ان میں حکومت، حزب اختلاف، سول سوسائٹی اور ایسے تمام گروپ شامل ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات سنی جائے۔‘‘
اس سال کے شروع میں جب وزیرِ خارجہ ہلری کلنٹن صنعا میں یمن کے صدر صالح سے ملی تھیں تو انھوں نے امریکہ اور یمن کے تعلقات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ’’ہمیں دہشت گردوں اور القاعدہ کے مشترکہ خطرے کا سامنا ہے لیکن ہماری شراکت داری انسدادِ دہشت گردی تک محدود نہیں۔
لیکن واشنگٹن کے مضافات میں واقع Towson University کے Charles Schmitz کہتے ہیں کہ امریکہ کے لیے القاعدہ کے خطرے کو دوسری تمام چیزوں پر فوقیت حاصل ہے اور اس وجہ سے امریکہ کا اثر و رسوخ محدود ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ’’ ان کی بیشتر توجہ اسی مسئلے پر رہی ہے ۔ میرے خیال میں اس وجہ سے یمن کے اندر امریکہ کے اثر و رسوخ کو کسی حد تک نقصان پہنچا ہے۔ یمن کے لوگوں کا اصل مسئلہ القاعدہ نہیں ہے۔ انھیں اپنی حکومت، سیاسی اصلاحات اور اقتصادی ترقی کی فکر ہے۔
یمن میں اس ہفتے حزبِ اختلاف کے لیڈروں نے صدر صالح کے اس وعدے کو مسترد کر دیا کہ وہ ملک میں جمہوری اصلاحات کے فروغ کے لیے نئے آئین کے بارے میں ایک ریفرینڈم منعقد کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ یہ اقدام بہت دیر سے کیا جا رہا ہے اور اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔
مسٹر صالح 1978 کے فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک بر سرِ اقتدار رہےہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ 2013ء سے پہلے اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب ان کے عہدے کی مدت ختم ہو گی۔