یمن میں شادی کی ایک تقریب پر ہوائی حملے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 130 تک پہنچ گئی ہے۔
منگل کو اقوام متحدہ اور مقامی طبی اہلکاروں نے ہلاکتوں میں اضافے کی تصدیق کی ہے۔ سعودی قیادت والا اتحاد یمن میں حوثی باغیوں پر اس سال مارچ سے فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہے، سوموار کو یمن کے گاؤں، وحیجہ میں ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
ترجمان برگیڈئر جنرل احمد الاسری نے شادی کی تقریب پر حملے سے متعلق الزمات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دیا ہے۔
حوثی باغیوں کی جانب سے دارلحکومت صنعاء پر قبضے کے نتیجے میں ایک سال پہلے شروع ہونے والی اس لڑائی میں شہری متاثر ہو رہے ہیں۔ لڑائی کے باعث، یمن کے صدر عبدو ربو منصور ہادی سعودی عرب فرار ہوگئے تھے۔ تاہم، وہ ہوائی حملوں اور حکومت کی حامی فورسز کی جانب سے پش قدمی کے بعد، اس ماہ کے آغاز میں وطن لوٹ آئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بتایا ہے کہ گزشتہ منگل تک چھ ماہ کے دوران، 2355 شہری قتل کئے جا چکے ہیں۔ ہیومن رائٹس گروپ اس قتل عام کی ذمہ داری دونوں فریقوں پر عائد کرتا ہے۔
سکریٹری جنرل اقوام متحدہ بان کی مون نے سوار کو ہوائی حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ یمن کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں۔
منگل کی رات جاری ہونے والے ایک بیان میں بان کی مون کے ترجمان نے شہریوں پر ہونے والے ان حملوں کو غیر قانونی قرار دیا اور بان کی مون کی جانب سے یمن میں تمام جماعتوں سے فائر بندی کی اپیل کی۔
بان کی مون کے بیان میں کہا گیا ہے کہ، ’شہریوں کے خلاف ہونے والا ہر بین الاقوامی حملہ بین الاقوامی انسانی قوانین کے خلاف تصور ہوگا، اور احتساب کو یقینی بنانے کے لئے ان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی فوری، مؤثر، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہئے۔
جنگ کے نتیجے میں، 18 لاکھ لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، اب بھی بہت سے لوگ خوراک اور بنیادی انسانی ضرورت کے منتظر ہیں۔