رسائی کے لنکس

فٹ بال ورلڈ کپ میں ذاکر نائیک کو مدعو کیے جانے پر بھارت میں شدید ردِ عمل، قطر کی وضاحت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

قطر میں جاری فٹ بال ورلڈ کپ کے دوران بھارت کے متنازع اسلامی اسکالر اور مبلغ ذاکر نائیک کو مبینہ طور پر تبلیغ کے لیے مدعو کیے جانے پر بھارت میں شدید ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے اور قطر کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ترجمان نے حکومت، بھارت کی فٹ بال ایسوسی ایشنز اور فٹ بال شائقین سے عالمی کپ کے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے۔

مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پری نے اپنے ردِ عمل میں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ بھارت اس معاملے کو قطر کی حکومت کے سامنے ممکنہ سخت انداز میں اٹھائے گا۔

منگل کے روز نئی دہلی میں ایک تقریب کے موقع پر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ اس وقت وہ ملائیشیا کے شہری ہیں اور انہیں کہیں بھی مدعو کیا جا سکتا ہے۔ البتہ ابھی یہ معلوم نہیں ہے کہ انہیں حکومتِ قطر نے مدعو کیا ہے۔

بی جے پی کے ایک ترجمان سیوئیو روڈرگس نے منگل کو گوا میں ایک بیان میں کہا کہ فٹ بال ورلڈ کپ ایک عالمی ایونٹ ہے۔ پوری دنیا سے لوگ اسے دیکھنے جا رہے ہیں۔ لاکھوں افراد ٹیلی ویژن پر اس مقابلے کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے موقع پر جب کہ دنیا عالمی دہشت گردی سے لڑ رہی ہے، ذاکر نائیک کو پلیٹ فارم دینا ایک دہشت گرد کو انتہاپسندی اور نفرت پھیلانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔

انہوں نے بھارت اور دیگر ممالک میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد سے اپیل کی کہ وہ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کریں۔

ان کے بقول ذاکر نائیک خود کسی دہشت گرد سے کم نہیں ہیں۔

سابق اسپورٹس مین میجر سریندر پونیہ نے ایک بیان میں کہا کہ قطر نے القاعدہ کے حامی اور بھارت میں مطلوب ذاکر نائیک کو سرکاری مہمان بنایا ہے۔ وہ ایک ایسے شخص کو جو کہ غیر مسلموں کے خلاف تشدد اور جہاد کا حامی ہے، کیسے مدعو کر سکتا ہے۔

معروف تاریخ داں عرفان حبیب نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ذاکر نائیک کو مدعو کیے جانے کو تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر فٹ بال عالمی کپ کوئی اجتماع نہیں ہے تو پھر ذاکر نائیک کو بولنے کے لیے کیوں بلایا گیا ہے۔

نئی دہلی کے اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘کی ایک رپورٹ کے مطابق قطر نے سفارتی ذرائع سے بھار ت کو مطلع کیا ہے کہ 20 نومبر کو دوحہ میں منعقد ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے افتتاحی پروگرام میں شرکت کے لیے اسلامی مبلغ ذاکر نائیک کو سرکاری طور پر مدعو نہیں کیا گیا تھا۔

اس کا دعویٰ ہے کہ بھارت اور قطر کے باہمی تعلقات کو خراب کرانے کے مقصد سے عمداً ایسی غلط خبر پھیلائی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق قطر کا یہ جواب مودی حکومت کی اس دھمکی کے بعد آیا کہ اگر دوحہ نے 20 نومبر کو ہونے والے افتتاحی پروگرام کو وی وی آئی پی باکس سے دیکھنے کے لیے ذاکر نائیک کو باضابطہ طور پر مدعو کیا ہے تو بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کو واپس بلا لیا جائے گا۔

یاد رہے کہ نائب صدر نے افتتاحی پروگرام میں شرکت کی تھی او راگلے روز قطر سے واپس آگئے تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایسی خبریں ہیں کہ ذاکر نائیک ملائیشیا سے قطر گئے ہیں لیکن انہیں اسٹیڈیم میں نہیں دیکھا گیا۔

دوحہ کے حکام کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ ذاکر نائیک ذاتی طور پر دوحہ میں ہوں لیکن وہ کہیں کسی کو دکھائی نہیں دیے۔


واضح رہے کہ بھارت اور دیگر ممالک میں ممبئی کے رہائشی ذاکر نائیک کے مداحوں کی بڑی تعداد ہے۔ ممبئی کے ایک سینئر صحافی اور روزنامہ ’ممبئی اردو نیوز‘ کے ایڈیٹر شکیل رشید کا کہنا ہے کہ بھارت نے ذاکر نائیک کو مفرور قرار دے رکھا ہے اور ان کے ادارے پر پابندی لگا دی ہے لیکن ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ میڈیا اور عوام کا ایک طبقہ ذاکر نائیک کو مبینہ طور پر مدعو کیے جانے کے بہانے مسلمانوں اور اسلام کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس سے قطر کا تو کوئی نقصان نہیں ہوگا البتہ بھارت میں دو طبقات کے درمیان کی خلیج وسیع ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ اس موقع پر بعض لوگ نوپور شرما کی حمایت کرتے ہوئے دونوں کا موازنہ کر رہے ہیں۔ اس پر شکیل رشید کا کہنا ہے کہ دونوں کا معاملہ مختلف ہے، ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ نوپور شرما نےقابلِ اعتراض باتیں کہیں تھیں جب کہ ذاکر نائیک اسلام کے مبلغ ہیں۔ نوپور شرما کے معاملے میں قطر نے بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا تھا۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب جب کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق قطر نے وضاحت کر دی ہے تو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جاری مہم بند ہو جانی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات کی وجہ سے ممالک کے تعلقات خراب نہیں ہوتے۔ جب نوپور شرما کے معاملے پر بھارت اور قطر کے رشتے خراب نہیں ہوئے تو ذاکر نائیک کے معاملے پر بھی خراب نہیں ہوں گے۔

یاد رہے کہ قطر میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ بھارتی شہری کام کرتے ہیں جن میں سے بیشتر فٹ بال کے دیوانے ہیں۔ قطر میں کام کرنے والوں میں بڑی تعداد میں ریاست کیرالہ کے شہری شامل ہیں۔

ذاکر نائیک کون ہیں؟

اسلامی مبلغ ذاکر نائیک 1990 کے عشرے میں کافی مقبول ہوئے۔ وہ ممبئی میں واقع اپنے ادارے اسلامک ریسرچ فاونڈیشن (آئی آر ایف) اور ٹیلی ویژن چینل ’پیس ٹی وی‘ کے توسط سے اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق ان کے نظریات و خیالات کو ایک بڑا طبقہ انتہاپسندانہ مانتا ہے۔ ان پر غیر مسلموں کے خلاف جہاد اور تشدد کی حمایت کا الزام ہے۔

سال 2016 میں ڈھاکہ میں ایک دہشت گرد حملہ ہوا تھا جس میں تقریباً 20 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس معاملے میں گرفتار مشتبہ شخص نے کہا تھا کہ وہ ذاکر نائیک کی تقریروں سے متاثر ہے۔

بھارتی حکومت نے 2016 میں آئی آر ایف اور ان کے اردو اور انگریزی زبان کے ٹی وی چینلز پر غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے قانون ’یو اے پی اے‘ کے تحت پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی اور ان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کی جانے لگی۔

حکومت کے ان اقدامات کے بعد وہ ملائیشیا چلے گئے اور اس وقت سےوہیں مقیم ہیں۔

بھارتی وزارتِ داخلہ نے رواں سال مارچ میں ان پر عائد پابندی میں مزید پانچ سال کے لیے توسیع کر دی تھی۔

بھارت نے ملائیشیا سے اپیل کی ہے کہ وہ ذاکر نائیک کو اس کے حوالے کرے۔ وہ ان کے خلاف انٹرپول کی جانب سے ریڈ کارنر نوٹس جاری کرانے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔

رپورٹس میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں ملائیشیا کی شہریت ملی ہوئی ہے البتہ وہاں ان کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہے۔

وہ ملائیشیا میں ایسی 16 اسلامی شخصیات میں شامل ہیں جن پر پابندی ہے۔ برطانیہ اور کینیڈا میں بھی ان کی تقریروں پر پابندی عائد ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG