پاکستان کے موجودہ صدر اور حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کو برسراقتدار آئے 39ماہ ہوچکے ہیں۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو واضح ہوتا ہے کہ ان 39مہینوں میں جتنے زیادہ مسائل اور بحرانوں کا سامنا انہیں کرنا پڑا ، اتنے مسائل ان کی اہلیہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو کبھی درپیش ہی نہیں ہوئے حالانکہ وہ مجموعی طور پر 57ماہ برسراقتدار رہیں۔ لہذا بحرانوں پر قابو پانے کے حوالے یہ کہا جائے کہ وہ بے نظیر بھٹو سے بھی دو قدم آگئے نکل گئے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
ملکی سیاسی تاریخ پرآمریت کے بادل
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ملکی سیاست پر جمہوریت سے زیادہ آمریت کے بادل چھائے رہے ہیں ۔ جمہوری تاریخ کا آغاز پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو سے ہوتا ہے جب14 اگست 1973کو انہوں نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا یا تاہم5 جولائی 1977کو سابق فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء نافذ کردیا۔اس طرح انہوں نے بحیثیت منتخب وزیر اعظم 47ماہ یعنی چار سال سے بھی کم مدت برسراقتدار رہ کر گزاری۔
بینظیر بھٹو کا دور اقتدار
ضیاء الحق کی فضائی حادثے میں موت کے بعد صدر زرداری کی اہلیہ بے نظیر بھٹو نے 2 دسمبر 1988 کو 35 سال کی عمر میں ملک اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔لیکن6 اگست 1990ء کو یعنی بیس ماہ بعد ہی صدر اسحق خان نے ان کی حکومت کو بد عنوانی کے الزامات لگا کر برطرف کر دیا۔ یہ ان کا پہلا دور حکومت تھا ۔
دوسری مرتبہ 19 اکتوبر 1993کوبے نظیر ایک مرتبہ پھر وزیرِاعظم بن گئیں لیکن اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے سینتیس ماہ بعد 5نومبر 1996 کو بدامنی، بد عنوانی اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات لگا کر بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔اس طرح اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کا اب تک طویل ترین دور حکومت ذوالفقار علی بھٹو کا ہی ہے ۔
2008ء میں پی پی کی کامیابی، صدر زرداری کا امتحان تھا
پاکستان کی سیاست میں آصف علی زرداری پہلے صدر ہیں جو پارٹی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کے سربراہ بھی ہیں ۔انہوں نے جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تھی تو اس وقت کے سیاسی پنڈتوں کا خیال تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اب ختم ہو جائے گی۔ توقع کی جارہی تھی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے انتقال کی وجہ سے پاکستان پیپلز پارٹی 2008کے انتخابات میں پورے ملک میں کلین سوئپ کرے گی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں ہو سکی ۔دراصل یہیں سے پارٹی سربراہ کا امتحان شروع ہوا تھا۔
پیپلز پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام
سنہ 2008کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی اسمبلی میں موجودگی کا تناسب 1988کے مقابلے میں کم تھا۔ اگرچہ نشستیں زیادہ تھیں لیکن مجموعی نشستوں میں اضافے کی وجہ سے یہ تناسب کم تھا ۔اس کمزور پوزیشن کے با وجود آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی اقتدار پر گرفت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ایوان میں سادہ اکثریت نا ہونے کے باوجودسید یو سف رضا گیلانی 25مارچ 2008کو بلا مقابلہ منتخب ہوئے ۔
صدارتی انتخابات
اگست 2008ء میں متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے زرداری کا نام صدر کے عہدے کے لیے تجویز کیا جس کے بعد پیپلزپارٹی نے باضابطہ طور پرانہیں 6 ستمبر 2008 کے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔دو ہزار آٹھ سے تا حال وہ صدر ہیں جبکہ قومی اسمبلی کی اسپیکر شپ، ڈپٹی اسپیکر شپ اور چیئر مین سینیٹ جیسے تمام بڑے اور اہم عہدے بھی انہی کی پارٹی کے پا س ہیں جوآصف علی زرداری کی سیاسی میدان میں ایک بڑی کامیابی ہے ۔
سنہ2008کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے فوری بعد سیاسی تجزیہ نگا روں اور سیاسی فال نکالنے والوں کا خیال تھا کہ یہ حکومت چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی لیکن اندرونی اور بیرونی بحرانوں کی کثرت کے با وجود موجودہ حکومت اپنی پارٹی کی سابق سربراہ محتر مہ بے نظیر بھٹو کی دوسرے دور اقتدار کی طویل ترین حکومتی مدت(37ماہ ) کے پیریڈ کو کرا س کر چکی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کے بانی چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت کو بھی کراس کر کے تاریخ میں پیپلز پارٹی کے طویل ترین دور حکومت کا اعزاز بھی اپنے لئے حاصل کر لے گی ۔
بحران اور مسائل
صدر آصف علی زرداری کے اقتدار میں آتے ہی عدلیہ کی بحالی کا مسئلہ اس شدت سے اٹھا تھا کہ تمام سیاسی تجزیہ کار یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے کہ حکوت کا جانا ٹہر گیا ہے ’صبح گئی کہ شام گئی‘ لیکن عدلیہ بحال بھی ہو گئی اور حکومت بھی برقرار رہی ۔
بعد ازاں جب سوئس کیسوں کا پنڈورا باکس کھو لا گیا تواس وقت بھی یہی کہا گیا کہ حکومت کی بساط لپٹنے والی ہے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔اسی طرح جب متحدہ قومی مو ومنٹ نے حکومت سے علیحدگی اختیار کی اس وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ اب حکومت کی چھٹی ہوگئی، اب کسی صورت حکو مت نہیں بچے گی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔
پھر جب لاہور میں ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا تو سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ حکومت اس بحران سے نہیں نکل سکتی اب تو زرداری صاحب کو ایوان صدر سے نکلنا ہوگا ۔لیکن یہ مسئلہ بھی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
خارجی سطح پر اگر دیکھا جائے تو بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی صدر زرداری کی خواہش کو ابتداء میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیالیکن وہ مرحلہ بھی گزر گیا ۔
ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کو بھی حکومت کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیالیکن امریکا کے ساتھ تعلقات ،تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر پہنچنے کے با وجود معمول پر آنا شروع ہو گئے اور رفتہ رفتہ صورتحال بہتر ہو گئی ۔
یہ شواہد اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ صدر زرداری ہر قسم کی صورتحال سے نکلنے کا فن جا نتے ہیں۔ اگرچہ وہ خود کو محتر مہ بے نظیر بھٹوکا شاگرد کہتے ہیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو اس قسم کے حالات سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ انہیں دو مرتبہ اقتدار سے الگ کردیا گیا۔ ایک مرتبہ تو خود ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت نے ان کی حکو مت ختم کی ۔
آصف علی زرداری کے خلاف مائیک مولن کو لکھے گئے مراسلے کے اسکینڈل نے ایک مرتبہ پھر صورتحا ل پیچیدہ کردی ہے ۔آج پھر تجزیہ نگاروں نے حکومت جانے کی پیشین گوئیاں کرنا شروع کردی ہیں لیکن ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نا ہوگا کہ زرداری اس صورتحال سے بھی جلد ہی نکل جائیں گے ۔۔ اور ہو سکتا ہے کہ امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کو بھی اپنے عہدے کی قربانی نہ دینی پڑے ۔