رپورٹ کے مطابق بائیوٹیک کپاس کی پیداوار مقابلتاً 24 فی صد زیادہ رہی اور ان کا منافع بھی دوسروں کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھا۔
کپاس کی جینیاتی طور تیار کی جانے والی نئی قسم اپنی زیادہ پیدوار اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے کی بہتر صلاحیت کی بنا پربہت سے کاشت کاروں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہے۔
کئی ترقی پذیرممالک کی طرح بھارت میں کھیتی باڑی عموماً چھوٹی سطح پر کی جاتی ہے۔جرمنی گیٹنگ گن یونیورسٹی کے ایک زرعی ماہر ماتیم کیم کا کہناہے کہ بھارت میں ایسے کاشت کاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو صرف دو سے چار ایکٹر رقبے پر کپاس کاشت کرتے ہیں۔
ان کا کہناہے چھوٹے کاشتکاروں کی اکثریت کو کیڑے مکوڑوں اور سونڈھی کے حملے کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
سونڈھی امریکی کپاس کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ کی ایک بائیوٹیک اور بیجوں کی افزائش سے متعلق کمپنی مونسانٹو نے جینیاتی طورپر کپاس کا ایک ایسا پودا تیار کیا ہے جس کے اندرجراثیم کش اجزا خود پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا پروٹین ہے جسے بی ٹی آرگینک کہا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ بی ٹی ایک محفوظ جزو ہے جو عشروں سے کیڑے مکوڑوں کو قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔
دنیا بھر کے کاشت کار اس نئی ٹیکنالوجی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور 75 فی صد امریکی کپاس اور 90 فی صد کپاس کی بھارتی ورائٹی کے لیے بی ٹی کا استعمال کیا جارہاہے۔
لیکن امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک سائنس دان گیلن سٹون کہتے ہیں کہ بی ٹی کے استعمال نے کئی نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔
ان کا کہناہے کہ بی ٹی کے صفات رکھنے والے بیچ روایتی بیجوں سے مہنگے ہوتے ہیں ، جس سے کاشت کاری کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور چھوٹے کاشت کار قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خودکشیوں کے بھی کئی واقعات سامنے آرہے ہیں۔
لیکن نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں متم قائم نے کہاہے کہ 2002ء سے 2008ء تک عرصے کے دوران کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق بی ٹی کپاس کاشت کرنے والے کسان کپاس کی روایتی ورائٹی بیجنے والے کاشت کاروں کے مقابلے میں فائدے میں رہے۔
رپورٹ کے مطابق بائیوٹیک کپاس کی پیداوار مقابلتاً 24 فی صد زیادہ رہی اور ان کا منافع بھی دوسروں کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھا۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے گیلن سٹون یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بی ٹی کپاس کی پیداوار کپاس کی روایتی اقسام سے زیادہ ہوتی ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ سونڈھی کے مقابلے میں اب دوسرے کیڑے مکوڑے کپاس کی فصل کے لیے زیادہ بڑا چیلنج بنتے جارہے ہیں، جس سے بی ٹی کے فوائد زائل ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
کئی ترقی پذیرممالک کی طرح بھارت میں کھیتی باڑی عموماً چھوٹی سطح پر کی جاتی ہے۔جرمنی گیٹنگ گن یونیورسٹی کے ایک زرعی ماہر ماتیم کیم کا کہناہے کہ بھارت میں ایسے کاشت کاروں کی تعداد لاکھوں میں ہے جو صرف دو سے چار ایکٹر رقبے پر کپاس کاشت کرتے ہیں۔
ان کا کہناہے چھوٹے کاشتکاروں کی اکثریت کو کیڑے مکوڑوں اور سونڈھی کے حملے کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔
سونڈھی امریکی کپاس کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ امریکہ کی ایک بائیوٹیک اور بیجوں کی افزائش سے متعلق کمپنی مونسانٹو نے جینیاتی طورپر کپاس کا ایک ایسا پودا تیار کیا ہے جس کے اندرجراثیم کش اجزا خود پیدا کرتا ہے۔ یہ ایک طرح کا پروٹین ہے جسے بی ٹی آرگینک کہا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ بی ٹی ایک محفوظ جزو ہے جو عشروں سے کیڑے مکوڑوں کو قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہاہے۔
دنیا بھر کے کاشت کار اس نئی ٹیکنالوجی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اور 75 فی صد امریکی کپاس اور 90 فی صد کپاس کی بھارتی ورائٹی کے لیے بی ٹی کا استعمال کیا جارہاہے۔
لیکن امریکہ کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک سائنس دان گیلن سٹون کہتے ہیں کہ بی ٹی کے استعمال نے کئی نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔
ان کا کہناہے کہ بی ٹی کے صفات رکھنے والے بیچ روایتی بیجوں سے مہنگے ہوتے ہیں ، جس سے کاشت کاری کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں اور چھوٹے کاشت کار قرضوں کے بوجھ تلے دبتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں خودکشیوں کے بھی کئی واقعات سامنے آرہے ہیں۔
لیکن نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں متم قائم نے کہاہے کہ 2002ء سے 2008ء تک عرصے کے دوران کیے جانے والے ایک مطالعاتی جائزے کے مطابق بی ٹی کپاس کاشت کرنے والے کسان کپاس کی روایتی ورائٹی بیجنے والے کاشت کاروں کے مقابلے میں فائدے میں رہے۔
رپورٹ کے مطابق بائیوٹیک کپاس کی پیداوار مقابلتاً 24 فی صد زیادہ رہی اور ان کا منافع بھی دوسروں کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھا۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے گیلن سٹون یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بی ٹی کپاس کی پیداوار کپاس کی روایتی اقسام سے زیادہ ہوتی ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ سونڈھی کے مقابلے میں اب دوسرے کیڑے مکوڑے کپاس کی فصل کے لیے زیادہ بڑا چیلنج بنتے جارہے ہیں، جس سے بی ٹی کے فوائد زائل ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔