امریکی دفتر خارجہ کی اس سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک میں مذہبی آزادی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ 2011 کی رپورٹ دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان کے غیر مسلم اقلیتوں اور فرقوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
پیر کو امریکی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کی گئی مذہبی آزادی پر عالمی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مذہبی تعصب میں اضافہ ہوا ہے اور مذہبی آزادی میں کمی آئی ہے۔ اس رجحان کی ذمے داری زیادہ تر انتہا پسند گروہوں پر ڈالی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی حکومت کو اس رجحان کے خلاف کوئی کوشش نہ کرنے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں، اور مذہبی اکثریت میں شامل ایسے افراد پر انتہا پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جو رواداری اور برداشت کا سبق دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت ان حملوں کے ذمے دار افراد کے خلاف شاذو نادر ہی کوئی کاروائی کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ حقوقِ انسانی کمیشن کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کی منتخب حکومت ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جنہیں انتہا پسندوں سے خطرہ ہے۔‘‘ اس سلسلے میں خاص طور پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹّی کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان اعلٰی حکومتی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد انسانی حقوق کے کارکن اور مذہبی اقلیتیں اپنی رائے کے کھلے عام اظہار سے ڈرنے لگی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ’’سرکاری پالیسیاں اکثریت اور اقلیت کو قانون کی نظر میں برابر کے حقوق فراہم نہیں کرتیں۔‘‘ جبکہ ایسے واقعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جن میں مذہبی اقلیتوں کو پولیس کے قبضے میں تشدد کا سامنہ رہا ہے۔
احمدی فرقہ:
پاکستان میں احمدی فرقے کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ آئین مذہبی اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے اور اپنے مذہبی راہنماؤں کی تربیت کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن احمدیوں کو اس سلسلے میں پابندیوں کا سامنا ہے۔ اسی طرح عام طور پر ملک میں مذہبی لٹریچر پر پابندی نہیں ہے لیکن احمدیوں کو اپنا مذہبی لٹریچر چھاپنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
رپور ٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2010 میں لاہور میں جمعے کی نماز کے دوران احمدیوں پر دو بڑے حملے ہوئے تھے جن میں 86 کے قریب لوگ ہلاک اور سوا سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔ اگرچہ حکومت نے ان حملوں کی مذمّت کرتے ہوئے فوری طور پر ایک انکوائری کمیشن بنایا تھا لیکن 2011 کے اختتام تک اس کمیشن نے احمدی برادری سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔
رپورٹ میں خاص طور پر تحریک ختم نبوت کا ذکر کیا گیا ہے جس نے 2011 کے لیے اپنے کیلنڈر میں احمدیوں کو مرتد قرار دے کر لوگوں کو اکسایا ہے کہ ’’وہ اپنی سڑکوں کو احمدیوں سے خالی کر دیں۔ ” جبکہ عالمی مجلس تحفّظ ختم نبوت اور آل پاکستانی سٹوڈنٹس ختم نبوت فیڈریشن، فیصل آباد نے ایک پمفلٹ میں مسلمان اکثریت کو احمدیوں کے قتل پر اکسایا اور کہا گیا کہ احمدیوں کو قتل کرنے والے کو شہادت کا درجہ حاصل ہوگا۔
احمدیوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں عبادت گاہیں تعمیر کرنے کے پرمٹ بہت مشکل سے ملتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں پر اکثر مقامی حکومت قبضہ کر کے انہیں اکثریتی مسلم طبقے کے حوالے کر دیتی ہے۔
دیگر اقلیتیں:
احمدیوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو بھی اس رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور پاکستان ہندو کونسل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہر ماہ 20 سے 25 ہندو خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے اور سندھ اور بلوچستان کی ہندو کمیونٹی کے خلاف اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ پنجاب اور سندھ کی سکھ برادری کی ان شکایات کا بھی رپورٹ میں ذکر ہے کہ 2010 میں ان کے گردوارے کی 72 ایکڑ اراضی کو غیر قانونی طور پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بیچ دیا گیا۔
اسی طرح عیسائی برادری کی طرف سے ان شکایات کو بھی رپورٹ کا حصّہ بنایا گیا ہے کہ کراچی میں 150 سال پرانے گرجا گھر کو بیچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس سال بلوچستان میں ہزارہ شیعہ برادری کے خلاف حملوں میں اضافے اور سال بھر ملک کے مختلف حصّوں میں صوفی بزرگوں کے مزاروں پر حملوں کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے۔
فرقہ واریت اور انتہا پسندی:
رپورٹ کے مطابق اگرچہ مدرسوں میں ایسے نصاب پر پابندی ہے جو فرقہ وارانہ تعصب پر اکسائیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ چند برسوں میں چند بااثر دیوبندی مدارس میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دہشت گردی کے حق میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ اقلیتی گروہوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ جب انتہا پسند ان کی عبادت گاہوں پر حملہ کرتے ہیں تو حکومت ان کے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کرتی۔
توہین رسالت کے قوانین:
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کا بے جا استعمال عام ہے اور اس قانون کو جھوٹے الزامات لگا کر ذاتی عناد اور دشمنیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی حکومت کوئی روک تھام نہیں کر رہی۔ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس توہین رسالت کے 49 مقدمات درج ہوئے، جن میں سے آٹھ عیسائی، دو احمدی، اور 39 مسلمان تھے۔
ایسی اطلاعات کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے کہ پولیس کی حراست میں لوگوں پر ان کے مذہبی عقائد کی بنا پر تشدد کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایسے قیدیوں پر جن پر توہین رسالت کے الزامات ہوں۔
توہین رسالت کے قانون کی کھلے عام مخالفت کرنے والوں کے قتل اس رپورٹ کے مطابق سارے سال جاری رہے، جن میں دو اعلٰی حکومتی اہلکاروں یعنی پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کے قتل بھی شامل تھے۔ رپورٹ میں گورنر تاثیر کے قتل کے بعد بعض عوامی مظاہروں کے ذریعے اورمیڈیا اور سوشل میڈیا میں بعض تبصروں میں اس قتل کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے معاشرے میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا عندیہ قرار دیا گیا ہے۔
مذہی رواداری کے لیے حکومتی اقدامات:
حکومت نے مذہبی آزادی اور ملک میں رواداری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ مثلاً اقلیتی امور کی وزارت ختم ہونے کے بعد وزارت قومی ہم آہنگی کا قیام اور شہباز بھٹّی کی ہلاکت کے بعد اقلیتی امور کے لیے خصوصی مشیر کی نامزدگی۔
حکومت نے مقامی آبادی کو دہشت گرد گروہوں سے بچانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے ہیں، مثلاً تحریک طالبان پاکستان کے ان کمانڈرز کو گرفتار کیا گیا ہے جو مختلف علاقوں میں مبینہ خود کش حملہ آوروں کی مدد کرتے تھے۔
اس کے علاوہ عام طور پر اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے یا اپنی مرضی سے عبادت کرنے سے نہیں روکا جاتا۔ وفاق المدارس کی طرف سے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصّب ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے عہدے دار مدارس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ دیگر مضامین بھی پڑھائے جانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
دیگر ممالک:
امریکی دفتر خارجہ کی اس سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک میں مذہبی آزادی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ 2011 کی رپورٹ میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ایران میں صوفی اور بہائی فرقوں، مصر میں عیسائیوں، پاکستان اور انڈونیشیاء میں احمدیوں، چین میں یغور مسلمانوں، دنیا کے کئی ممالک بشمول یورپ میں مسلمانوں، برما میں روہنگیا مسلمانوں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں یہودیوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا ذکر ہے۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں سخت ترین قانونی، معاشی، تعلیمی، اور سماجی تعصب کا سامنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تصوّر نہیں کرتی اور اقوام متحدہ نے حکومت برما کو اپنی شہریت کے قوانین پر نظر ثانی کرنے کی تاکید کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں، اور مذہبی اکثریت میں شامل ایسے افراد پر انتہا پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جو رواداری اور برداشت کا سبق دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت ان حملوں کے ذمے دار افراد کے خلاف شاذو نادر ہی کوئی کاروائی کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ حقوقِ انسانی کمیشن کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان کی منتخب حکومت ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے جنہیں انتہا پسندوں سے خطرہ ہے۔‘‘ اس سلسلے میں خاص طور پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹّی کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان اعلٰی حکومتی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد انسانی حقوق کے کارکن اور مذہبی اقلیتیں اپنی رائے کے کھلے عام اظہار سے ڈرنے لگی ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ’’سرکاری پالیسیاں اکثریت اور اقلیت کو قانون کی نظر میں برابر کے حقوق فراہم نہیں کرتیں۔‘‘ جبکہ ایسے واقعات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا جن میں مذہبی اقلیتوں کو پولیس کے قبضے میں تشدد کا سامنہ رہا ہے۔
احمدی فرقہ:
پاکستان میں احمدی فرقے کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ آئین مذہبی اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے اور اپنے مذہبی راہنماؤں کی تربیت کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن احمدیوں کو اس سلسلے میں پابندیوں کا سامنا ہے۔ اسی طرح عام طور پر ملک میں مذہبی لٹریچر پر پابندی نہیں ہے لیکن احمدیوں کو اپنا مذہبی لٹریچر چھاپنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
رپور ٹ میں بتایا گیا ہے کہ مئی 2010 میں لاہور میں جمعے کی نماز کے دوران احمدیوں پر دو بڑے حملے ہوئے تھے جن میں 86 کے قریب لوگ ہلاک اور سوا سو کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔ اگرچہ حکومت نے ان حملوں کی مذمّت کرتے ہوئے فوری طور پر ایک انکوائری کمیشن بنایا تھا لیکن 2011 کے اختتام تک اس کمیشن نے احمدی برادری سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا۔
رپورٹ میں خاص طور پر تحریک ختم نبوت کا ذکر کیا گیا ہے جس نے 2011 کے لیے اپنے کیلنڈر میں احمدیوں کو مرتد قرار دے کر لوگوں کو اکسایا ہے کہ ’’وہ اپنی سڑکوں کو احمدیوں سے خالی کر دیں۔ ” جبکہ عالمی مجلس تحفّظ ختم نبوت اور آل پاکستانی سٹوڈنٹس ختم نبوت فیڈریشن، فیصل آباد نے ایک پمفلٹ میں مسلمان اکثریت کو احمدیوں کے قتل پر اکسایا اور کہا گیا کہ احمدیوں کو قتل کرنے والے کو شہادت کا درجہ حاصل ہوگا۔
احمدیوں نے شکایت کی ہے کہ انہیں عبادت گاہیں تعمیر کرنے کے پرمٹ بہت مشکل سے ملتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں پر اکثر مقامی حکومت قبضہ کر کے انہیں اکثریتی مسلم طبقے کے حوالے کر دیتی ہے۔
دیگر اقلیتیں:
احمدیوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو بھی اس رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اور پاکستان ہندو کونسل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ہر ماہ 20 سے 25 ہندو خواتین اور لڑکیوں کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے اور سندھ اور بلوچستان کی ہندو کمیونٹی کے خلاف اغوا برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ پنجاب اور سندھ کی سکھ برادری کی ان شکایات کا بھی رپورٹ میں ذکر ہے کہ 2010 میں ان کے گردوارے کی 72 ایکڑ اراضی کو غیر قانونی طور پر ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کو بیچ دیا گیا۔
اسی طرح عیسائی برادری کی طرف سے ان شکایات کو بھی رپورٹ کا حصّہ بنایا گیا ہے کہ کراچی میں 150 سال پرانے گرجا گھر کو بیچنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس سال بلوچستان میں ہزارہ شیعہ برادری کے خلاف حملوں میں اضافے اور سال بھر ملک کے مختلف حصّوں میں صوفی بزرگوں کے مزاروں پر حملوں کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے۔
فرقہ واریت اور انتہا پسندی:
رپورٹ کے مطابق اگرچہ مدرسوں میں ایسے نصاب پر پابندی ہے جو فرقہ وارانہ تعصب پر اکسائیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ چند برسوں میں چند بااثر دیوبندی مدارس میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دہشت گردی کے حق میں انتہا پسندی کی تعلیم دی جاتی رہی ہے۔ اقلیتی گروہوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ جب انتہا پسند ان کی عبادت گاہوں پر حملہ کرتے ہیں تو حکومت ان کے بچاؤ کے لیے کچھ نہیں کرتی۔
توہین رسالت کے قوانین:
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کا بے جا استعمال عام ہے اور اس قانون کو جھوٹے الزامات لگا کر ذاتی عناد اور دشمنیوں میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی حکومت کوئی روک تھام نہیں کر رہی۔ نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ برس توہین رسالت کے 49 مقدمات درج ہوئے، جن میں سے آٹھ عیسائی، دو احمدی، اور 39 مسلمان تھے۔
ایسی اطلاعات کا بھی اس رپورٹ میں ذکر ہے کہ پولیس کی حراست میں لوگوں پر ان کے مذہبی عقائد کی بنا پر تشدد کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر ایسے قیدیوں پر جن پر توہین رسالت کے الزامات ہوں۔
توہین رسالت کے قانون کی کھلے عام مخالفت کرنے والوں کے قتل اس رپورٹ کے مطابق سارے سال جاری رہے، جن میں دو اعلٰی حکومتی اہلکاروں یعنی پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیتی امور کے وزیر شہباز بھٹی کے قتل بھی شامل تھے۔ رپورٹ میں گورنر تاثیر کے قتل کے بعد بعض عوامی مظاہروں کے ذریعے اورمیڈیا اور سوشل میڈیا میں بعض تبصروں میں اس قتل کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے معاشرے میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا عندیہ قرار دیا گیا ہے۔
مذہی رواداری کے لیے حکومتی اقدامات:
حکومت نے مذہبی آزادی اور ملک میں رواداری کے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں۔ مثلاً اقلیتی امور کی وزارت ختم ہونے کے بعد وزارت قومی ہم آہنگی کا قیام اور شہباز بھٹّی کی ہلاکت کے بعد اقلیتی امور کے لیے خصوصی مشیر کی نامزدگی۔
حکومت نے مقامی آبادی کو دہشت گرد گروہوں سے بچانے کے لیے بھی کئی اقدامات کیے ہیں، مثلاً تحریک طالبان پاکستان کے ان کمانڈرز کو گرفتار کیا گیا ہے جو مختلف علاقوں میں مبینہ خود کش حملہ آوروں کی مدد کرتے تھے۔
اس کے علاوہ عام طور پر اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرنے یا اپنی مرضی سے عبادت کرنے سے نہیں روکا جاتا۔ وفاق المدارس کی طرف سے مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصّب ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے عہدے دار مدارس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ دیگر مضامین بھی پڑھائے جانے کی کوششیں کررہے ہیں۔
دیگر ممالک:
امریکی دفتر خارجہ کی اس سالانہ رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک میں مذہبی آزادی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ 2011 کی رپورٹ میں دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ خاص طور پر ایران میں صوفی اور بہائی فرقوں، مصر میں عیسائیوں، پاکستان اور انڈونیشیاء میں احمدیوں، چین میں یغور مسلمانوں، دنیا کے کئی ممالک بشمول یورپ میں مسلمانوں، برما میں روہنگیا مسلمانوں اور دنیا کے مختلف حصّوں میں یہودیوں کی مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا ذکر ہے۔
برما کے روہنگیا مسلمانوں کے ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں سخت ترین قانونی، معاشی، تعلیمی، اور سماجی تعصب کا سامنا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکومت روہنگیا مسلمانوں کو اپنا شہری تصوّر نہیں کرتی اور اقوام متحدہ نے حکومت برما کو اپنی شہریت کے قوانین پر نظر ثانی کرنے کی تاکید کی ہے۔