اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے اپنے ایک مضمون میں امریکی افواج کی جانب سے القاعدہ راہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ کے قانونی پہلووں کو موضوع بنایا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں ڈرون طیاروں کے ذریعے لڑی جانے والی جنگ نے مسلح تصادم کے ان تمام قوانین کو بے اثر کردیا ہے جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران تشکیل پائے تھے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی جانب سے ڈرون طیاروں کے ذریعے مطلوب ملزمان کی ٹارگٹ کلنگ صرف اسی صورت میں جائز قرار دی جاسکتی ہے جب امریکہ حالتِ جنگ میں ہو۔
لیکن اگر امریکی افواج زمانہ امن میں کوئی کاروائی کر رہی ہیں تو ان کی جانب سے ہدف بنا کر قتل کی یہ وارداتیں ملکی و بین الاقوامی قوانین کے تحت سراسر غیر قانونی ہیں۔
'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ قانون کی رو سے کسی بھی حکومت کے اہلکار صرف اسی صورت میں کسی ملزم کو ہلاک کرنے کے مجاز ہیں جب ایسا کرنا اپنی یا دوسروں کی جان بچانے کے لیے انتہائی ضروری ہو اور جب مطلوبہ شخص کو زندہ گرفتار کرنے کاکوئی مناسب موقع دستیاب نہ ہو۔
لیکن اخبار کے مطابق امریکہ جس نوعیت کی جنگ لڑ رہا ہے اس پر ان قوانین کا اطلاق کیا جانا مشکل ہے۔ 'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ موجودہ دور میں جنگ اور قیامِ امن کے لیے کی جانے والی کاروائیاں ایک دوسرے میں بری طرح گڈ مڈ ہوکر رہ گئی ہیں اور امریکی فوج بعض اوقات پولیس کا کردار بھی سنبھال لیتی ہے۔
'نیویارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ اس مبہم صورتِ حال میں ہدف بنا کر کی جانے والی ہلاکتوں پر تنقید کے بجائے موجودہ حالات میں جنگ اور امن کے درمیانی فرق کو واضح کرنے کے لیے کام کیا جانا چاہیے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ان اہدافی ہلاکتوں کے قانونی جواز کا تعین اس لیے بھی ضروری ہے کہ جن ڈرون طیاروں کے ذریعے امریکہ یہ تمام کاروائیاں انجام دے رہا ہے، ان پر امریکہ کی دسترس زیادہ عرصے تک نہیں رہنی اور یہ ٹیکنالوجی بالآخر امریکہ کے دشمن ممالک کے پاس بھی آجانی ہے۔
'نیو یارک ٹائمز' کے مضمون نگار کے بقول اس لیے بہتر ہوگا کہ امریکہ ان سوالوں کا جواب آج ہی ڈھونڈ لے جو دیگر ممالک کی ایسی ہی کاروائیوں کے نتیجے میں کل سر اٹھائیں گے۔
اخبار 'یو ایس اے ٹوڈے' نے اپنے ایک مضمون میں امریکی حکومت اور ذرائع ابلاغ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ لفظ "دہشت گرد" کا استعمال سوچ سمجھ کر اور احتیاط کے ساتھ کریں۔
اخبار لکھتا ہے کہ تازہ ترین جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی بھی واردات کے دہشت گردی قرار پانے میں ملزمان کی نسل اور مذہب اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اخبار کے مطابق ملزمان کے مسلمان یاعرب نژاد ہونے کی صورت میں واردات کو دہشت گردی کا رنگ دیے جانے کا رجحان ایسے واقعات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جن میں ملزمان کا تعلق کسی اور نسل یا مذہب سے ہو۔
'یو ایس اے ٹوڈے' نے اپنے مضمون میں امریکی حکام اور ذرائع ابلاغ کی اس پالیسی کے ثبوت میں کئی واقعات پیش کیے ہیں جن میں ملزمان کو سنگین نوعیت کے الزامات کے باوجود دہشت گرد قرار نہیں دیا گیا۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ بات واضح ہے کہ قتل و غارت کے واقعات میں ملوث غیر مسلم سفید فام باشندوں کو کبھی بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا جاتا۔
'یو ایس اے ٹوڈے' لکھتا ہے کہ دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کے نتیجے میں امریکی معاشرے میں کئی طرح کی قانونی اور سماجی پیچیدگیاں جنم لے رہی ہیں۔ امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں اضافہ ہورہا ہے، مسلمان تفتیشی اداروں کی غیر معمولی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں اور امریکی حکام اس بارے میں جانبدار طرزِ عمل کا شکار ہورہے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ اگر مذہب کے ذریعے ملزمان کے تعین میں مدد ملتی ہے اور"دہشت گرد" کے لقب کا استعمال قیامِ امن کے لیے اتنا ہی ضروری ہے، تو حکام کو چاہیے کہ اس بارے میں حد درجہ احتیاط کا مظاہرہ کریں۔