عالمگیر معثیت کے وجود میں آنے سے پہلے یہ مناسب بات تھی کہ غیر ملکی طلبہ کو امریکہ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس اپنے ملکوں میں بھیج دیا جائے: کرسچن سائینس مانٹر
’کرسچن سائینس مانٹر‘ کے مضمون میں امریکی کانگریس پر امی گریشن کے قوانین میں ترمیم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہر سال باہر سے آئے ہوئے ہزاروں افراد امریکہ کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرتے ہیں، انتہائی اہم تحقیق کا کام سرانجام دیتے ہیں اورایسا ہُنر و علم لے کر واپس اپنے اپنے ملک چلے جاتے ہیں جِس کی امریکہ کی اپنی جدت طراز معیشت کو بھی ضرورت ہے۔
لیکن، امریکہ کی امی گریشن پالیسی چلانے والوں کی بے عملی کی وجہ سے وہ کل کی بڑی کمپنیاں قائم کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ایسے افراد کی خدمات سے محروم ہوجاتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمگیر معثیت کے وجود میں آنے سے پہلے یہ مناسب بات تھی کہ غیر ملکی طلبہ کو امریکہ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس اپنے ملکوں میں بھیج دیا جائے۔
اِس طرح، مستقبل کے لیڈروں کو تعلیم دے کر امریکی یونیورسٹیاں مختلف تہذبوں کے مابین بڑے مضبوط رشتے قائم کرنے اور حکومتوں کے درمیان پائدار تعلقات قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی تھیں۔
یہ غیر ملکی طالب علم اپنےاپنے ملکوں میں واپس جاکرامریکی ہُنر، ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی مانگ بڑھانے میں کردار ادا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں امریکی مزدوروں کے روزگار میں اضافہ ہوتا تھا۔
وڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئے:
لیکن، اب جب کہ بین الاقوامی تجارت میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں تو امریکہ کی دقیانوسی امی گریشن پالیسی اب اس کی معیشت کے لیے ایک رکاوٹ بن گئی ہے اور ابھی حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ کی 10مقتدر یونیورسٹیوں نے جن ڈیڑھ ہزار نئی ایجادوں کے پیٹنٹس کے لیے درخواستیں دی ہیں، اُن میں 75فی صد غیر ممالک میں پیدا ہونے والے موجدوں کی مرہونِ منت ہیں۔
اس قسم کے مزید پیٹنٹس کے آنے سے مزید امریکی کمپنیاں وجود میں آئیں گی اور روزگار کے مزید مواقع نکلیں گے، بشرطیکہ کانگریس امی گریشن کے قوانین میں ترمیم کرنے کی ہمت کرے۔
اخبار کہتا ہے کہ چین اور ہندوستان کے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو نو سال سے اپنے گرین کارڈز کا انتظار کر رہے ہیں اور رکاوٹیں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ ہندوستان سے درخواست دینے والوں کو کئی مہینو ں سے لے کر عشروں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اخبار ’شکاگو سن ٹائمز ‘کہتا ہے کہ ایک جائیزے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے لوگوں کو اِس کا کوئی اندازہ نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی پرواہ ہے کہ سوشیل سکیورٹی اور میڈی کیئر کو ٹھیک کرنے کے لیے امریکہ کرنا چاہئیے جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ مسئلہ وسیع تر ہوگیا ہے اور ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ایک جائیزے سے انکشاف ہو اہے کہ نو کروڑ امریکی ایسے ہیں جو نومبر کے صدارتی انتخابات میں شاید ووٹ ہی نہ ڈالیں، کیونکہ وہ عاجز آچکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آخر اِس سے فرق ہی کیا پڑے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر آپ کو ووٹ دینے کا حق ہے اور آپ ووٹ نہیں دے رہے تو آپ پاگل ہیں۔ آخر انتخابات میں جو صدر بنے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو، وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا ایران کے خلاف جنگ کی جائے، یا اسقاطِ حمل کا قانون برقرار رہے، یاٹیکس بڑھائے جائیں، فہرست طویل ہے۔لہٰذا، اخبار نظر میں دونوں نا اُمیدیوں میں سے ایک کو منتخب کرنا کسی کو بھی منتخب نہ کرنے سے بہتر ہے۔
لیکن، امریکہ کی امی گریشن پالیسی چلانے والوں کی بے عملی کی وجہ سے وہ کل کی بڑی کمپنیاں قائم کرنے کی صلاحیت رکھنے والے ایسے افراد کی خدمات سے محروم ہوجاتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ عالمگیر معثیت کے وجود میں آنے سے پہلے یہ مناسب بات تھی کہ غیر ملکی طلبہ کو امریکہ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس اپنے ملکوں میں بھیج دیا جائے۔
اِس طرح، مستقبل کے لیڈروں کو تعلیم دے کر امریکی یونیورسٹیاں مختلف تہذبوں کے مابین بڑے مضبوط رشتے قائم کرنے اور حکومتوں کے درمیان پائدار تعلقات قائم کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی تھیں۔
یہ غیر ملکی طالب علم اپنےاپنے ملکوں میں واپس جاکرامریکی ہُنر، ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی مانگ بڑھانے میں کردار ادا کرتے تھے، جس کے نتیجے میں امریکی مزدوروں کے روزگار میں اضافہ ہوتا تھا۔
وڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجئے:
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن، اب جب کہ بین الاقوامی تجارت میں حائل رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں تو امریکہ کی دقیانوسی امی گریشن پالیسی اب اس کی معیشت کے لیے ایک رکاوٹ بن گئی ہے اور ابھی حال ہی میں انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ کی 10مقتدر یونیورسٹیوں نے جن ڈیڑھ ہزار نئی ایجادوں کے پیٹنٹس کے لیے درخواستیں دی ہیں، اُن میں 75فی صد غیر ممالک میں پیدا ہونے والے موجدوں کی مرہونِ منت ہیں۔
اس قسم کے مزید پیٹنٹس کے آنے سے مزید امریکی کمپنیاں وجود میں آئیں گی اور روزگار کے مزید مواقع نکلیں گے، بشرطیکہ کانگریس امی گریشن کے قوانین میں ترمیم کرنے کی ہمت کرے۔
اخبار کہتا ہے کہ چین اور ہندوستان کے ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو نو سال سے اپنے گرین کارڈز کا انتظار کر رہے ہیں اور رکاوٹیں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ ہندوستان سے درخواست دینے والوں کو کئی مہینو ں سے لے کر عشروں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اخبار ’شکاگو سن ٹائمز ‘کہتا ہے کہ ایک جائیزے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ امریکہ کے لوگوں کو اِس کا کوئی اندازہ نہیں ہے اور نہ اس کی کوئی پرواہ ہے کہ سوشیل سکیورٹی اور میڈی کیئر کو ٹھیک کرنے کے لیے امریکہ کرنا چاہئیے جو کہ ایک افسوس ناک بات ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ یہ مسئلہ وسیع تر ہوگیا ہے اور ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کے ایک جائیزے سے انکشاف ہو اہے کہ نو کروڑ امریکی ایسے ہیں جو نومبر کے صدارتی انتخابات میں شاید ووٹ ہی نہ ڈالیں، کیونکہ وہ عاجز آچکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آخر اِس سے فرق ہی کیا پڑے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ اگر آپ کو ووٹ دینے کا حق ہے اور آپ ووٹ نہیں دے رہے تو آپ پاگل ہیں۔ آخر انتخابات میں جو صدر بنے گا، چاہے وہ کوئی بھی ہو، وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا ایران کے خلاف جنگ کی جائے، یا اسقاطِ حمل کا قانون برقرار رہے، یاٹیکس بڑھائے جائیں، فہرست طویل ہے۔لہٰذا، اخبار نظر میں دونوں نا اُمیدیوں میں سے ایک کو منتخب کرنا کسی کو بھی منتخب نہ کرنے سے بہتر ہے۔