امریکہ میں کالاراڈو کے ایک سینما گھر اور وسکانسن کے ایک سکھ گوردوارے میں جس طرح بے گناہ لوگوں کا دو شقی القلب افراد کے ہاتھوں خون ناحق ہوا ہے اس پر اخبار ’شکاگو سن ٹائمز ‘ ایک ادارئے میں امریکی ادارے’ نیشنل رائفل ایسوسی ایشن‘ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہتا ہےکہ یہ ادارہ امریکی عوام کےبندوق رکھنے کے آئینی حق کا علمبردار ہے۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ہم آزادی اظہار کے حامی ضرور ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ ہم سے اتّفاق کریں گے کہ آپ لوگوں سے بھرے ہو ئے سینما گھر میں یہ صدا نہیں لگا سکتے کہ گولی چلاؤ۔ اخبار نے نیشنل رائفل ایسو سی ایشن کے اس دعوے کو چیلنج کیا ہے کہ وہ امریکی عوام کی ترجمانی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
بندوقوں پر کنٹرول کے معاملے میں امریکی عوام منقسم ہیں، جیسا کہ پیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے سے ظاہر ہے ، جس کے مطابق 62 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ نیم خودکار ہتھیاروں کو غیر قانونی قرار دینا چاہئیے۔
’ کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما نے جون میں جو اعلان کیا تھا کہ وُہ قانون کی پابندی کرنے والے اُن تارکین وطن کو امریکہ سے مُلک بدر کرنا بند کر دیں گے جو غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں لائے گئے ہوں۔
اُس اعلان کے بعد سے اُن تارکین ِوطن اور کانگریس کے ارکان کو یہ جاننے کی ٹوہ رہی ہے کہ آخر اس پروگرام پرکس طرح عمل درآمد ہوگا۔اخبار کہتا ہے کہ 15 اگست سے اُنہیں اس کا اندازہ ہونا شروع ہو جائے گا، جب امریکی شہریت اور امی گریشن سروسز والے ایسے تارکین وطن کی درخواستیں وصول کرنا شروع کریں گے ، تاکہ ا ُنہیں ایک خصوصی رُتبہ دیا جائے جس کے طُفیل انہیں ملک سے نکالنے کی کاروائی دو سال تک معطّل رہے گی۔
اخبار نے ان سروسز کے ڈئریکٹر کے حوالے سے بتا یا ہے کہ درخواست دینے والوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ وُہ 16 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی امریکہ میں وارد ہوئے تھے ۔ وُہ جُون 2007ء سے مسلسل امریکہ ہی میں مقیم رہے اور اس سال 15 جُون کو یہاں موجود تھے۔ اُن پر یہ بھی لازم ہے کہ اُنہوں نے بعض نصابی اور فوجی لوازمات پورے کر لئے ہوں ،اُن کے خلاف کوئی جُرم یا غلط چال چلن کا کوئی الزام ثابت نہ ہو، جس سے عوامی یا قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحٕق ہو ، اُنہوں نے باربار اس بات پر زور دیا کہ ہر درخواست پر انفراد ی طور پر غور کیا جائے گا اور یہ کہ حتمی تفصیلات اُسی دن فراہم کی جائیں گی جب درخواستیں وصول کی جائیں گی۔
اخبار کہتا ہے کہ 31 سال سے کم عمر والے تقریباً 13 لاکھ ایسے غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو فوری طور پر اس پالیسی سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور آنے والے برسوں میں مزید پانچ لاکھ 15 سال کی عمر کو پہنچنے پر اس کے حقدار ہونگے۔
ایک ممتاز ماہر اقتصادیات کا خیال ہےکہ امریکی انتظامیہ ایک ایسی آندھی کی لپیٹ میں ہے جس سے اس کی ہیئت بدل جائے گی ۔ ’بالٹی مور سن‘ میں پروفیسر رابرٹ رائیش ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ اس آندھی کی پہلی رو یہ ہے کہ امریکہ کے 400 امیر ترین لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے وُہ 15 کروڈ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ رجحان تیس سال قبل شروع ہوا تھاجس دوران عالم گیریت اورفنیاتی فروغ نے بیشتر لوگوں کی اجرتوں کو بڑھنے سے روک دیا اس آندھی کی دوسری رو ، سیاسی چندے ہیں جن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
اِس فیصلے کے تحت عملی طور پر کوئی بھی ارب پتی کسی بھی سیاسی مہم میں جتنا پیسہ لگانا چاہے لگا سکتا ہے ۔ تیسری رو یہ ہے کہ چندہ دینے والے کا نام صیغہء راز میں رہتا ہے۔ پروفیسر رائش، جو کلنٹن دور میں وزیر محنت رہ چُکے ہیں، کہتے ہیں کہ دولت کا غیرمعمولی ارتکاز ، سیاسی مہموں پر بلاروک ٹوک دولت کو لُٹانا اور اور پھر ان کا راز میں رہنا جمہوریت کو کھوکھلا کررہے ہیں۔
لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ہم آزادی اظہار کے حامی ضرور ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ ہم سے اتّفاق کریں گے کہ آپ لوگوں سے بھرے ہو ئے سینما گھر میں یہ صدا نہیں لگا سکتے کہ گولی چلاؤ۔ اخبار نے نیشنل رائفل ایسو سی ایشن کے اس دعوے کو چیلنج کیا ہے کہ وہ امریکی عوام کی ترجمانی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
بندوقوں پر کنٹرول کے معاملے میں امریکی عوام منقسم ہیں، جیسا کہ پیو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے رائے عامہ کے ایک تازہ جائزے سے ظاہر ہے ، جس کے مطابق 62 فیصد امریکیوں کا ماننا ہے کہ نیم خودکار ہتھیاروں کو غیر قانونی قرار دینا چاہئیے۔
’ کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ صدر اوباما نے جون میں جو اعلان کیا تھا کہ وُہ قانون کی پابندی کرنے والے اُن تارکین وطن کو امریکہ سے مُلک بدر کرنا بند کر دیں گے جو غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں لائے گئے ہوں۔
اُس اعلان کے بعد سے اُن تارکین ِوطن اور کانگریس کے ارکان کو یہ جاننے کی ٹوہ رہی ہے کہ آخر اس پروگرام پرکس طرح عمل درآمد ہوگا۔اخبار کہتا ہے کہ 15 اگست سے اُنہیں اس کا اندازہ ہونا شروع ہو جائے گا، جب امریکی شہریت اور امی گریشن سروسز والے ایسے تارکین وطن کی درخواستیں وصول کرنا شروع کریں گے ، تاکہ ا ُنہیں ایک خصوصی رُتبہ دیا جائے جس کے طُفیل انہیں ملک سے نکالنے کی کاروائی دو سال تک معطّل رہے گی۔
اخبار نے ان سروسز کے ڈئریکٹر کے حوالے سے بتا یا ہے کہ درخواست دینے والوں کو ثابت کرنا پڑے گا کہ وُہ 16 سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی امریکہ میں وارد ہوئے تھے ۔ وُہ جُون 2007ء سے مسلسل امریکہ ہی میں مقیم رہے اور اس سال 15 جُون کو یہاں موجود تھے۔ اُن پر یہ بھی لازم ہے کہ اُنہوں نے بعض نصابی اور فوجی لوازمات پورے کر لئے ہوں ،اُن کے خلاف کوئی جُرم یا غلط چال چلن کا کوئی الزام ثابت نہ ہو، جس سے عوامی یا قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحٕق ہو ، اُنہوں نے باربار اس بات پر زور دیا کہ ہر درخواست پر انفراد ی طور پر غور کیا جائے گا اور یہ کہ حتمی تفصیلات اُسی دن فراہم کی جائیں گی جب درخواستیں وصول کی جائیں گی۔
اخبار کہتا ہے کہ 31 سال سے کم عمر والے تقریباً 13 لاکھ ایسے غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو فوری طور پر اس پالیسی سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور آنے والے برسوں میں مزید پانچ لاکھ 15 سال کی عمر کو پہنچنے پر اس کے حقدار ہونگے۔
ایک ممتاز ماہر اقتصادیات کا خیال ہےکہ امریکی انتظامیہ ایک ایسی آندھی کی لپیٹ میں ہے جس سے اس کی ہیئت بدل جائے گی ۔ ’بالٹی مور سن‘ میں پروفیسر رابرٹ رائیش ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ اس آندھی کی پہلی رو یہ ہے کہ امریکہ کے 400 امیر ترین لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے وُہ 15 کروڈ امریکیوں کے مجموعی اثاثوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ رجحان تیس سال قبل شروع ہوا تھاجس دوران عالم گیریت اورفنیاتی فروغ نے بیشتر لوگوں کی اجرتوں کو بڑھنے سے روک دیا اس آندھی کی دوسری رو ، سیاسی چندے ہیں جن پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اب کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔
اِس فیصلے کے تحت عملی طور پر کوئی بھی ارب پتی کسی بھی سیاسی مہم میں جتنا پیسہ لگانا چاہے لگا سکتا ہے ۔ تیسری رو یہ ہے کہ چندہ دینے والے کا نام صیغہء راز میں رہتا ہے۔ پروفیسر رائش، جو کلنٹن دور میں وزیر محنت رہ چُکے ہیں، کہتے ہیں کہ دولت کا غیرمعمولی ارتکاز ، سیاسی مہموں پر بلاروک ٹوک دولت کو لُٹانا اور اور پھر ان کا راز میں رہنا جمہوریت کو کھوکھلا کررہے ہیں۔