برما میں سن 2007 کے جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد، اس ہفتے وہاں کے بودھ بھکشو ؤں کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔
بنکاک —
انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش میں اس بات سے اضافہ ہو رہا ہےکہ برما کے بد ھ بھِکشو، تیسرے مسلسل روز بھی اقلیتی روہیگیا مسلمانوں کی بے دخلی کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔
برما میں سن 2007 کے جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد، اس ہفتے وہاں کے بدھ بھکشو ؤں کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔
اتوار کے روز اپنے روایتی نارنجی رنگ کے لبادوں میں ، سینکڑوں بھکشوؤں نے برما کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں مظاہرے کئے۔ لیکن اس دفعہ یہ بھکشو، صدر تین سین کی حمایت میں مظاہرے کر رہے تھے جنہوں نے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی کے لئے کہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیائی خطے کے ڈپٹی ڈائیریکٹر، فِل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ اس فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھکشوؤں کے اخلاقی اختیار سے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
رابرٹسن کہتے ہیں کہ صرف چند سال پہلے، یہ بھکشو جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے احتجاج کر رہے تھے، اور آج یہ مخصوص نسلی گروپ کو الگ کرنے اور ان کی ممکنہ بے دخلی کی بات کر رہے ہیں، جس سے اِن خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ کہیں برمی حکومت ان آوازوں پر توجہ دینا شروع نہ کر دے۔
سو اونگ ،برما میں فورم فور ڈیموکریسی کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بھکشوؤں کے ایسے اقدامات سے دکھ ہوتا ہے۔ ان ہی بھکشو ؤں کو سن 2007 کی زعفرانی تحریک کے دوران بری طرح کچلا گیا اور ہلاک کیا ۔
اس موسمِ گرما میں، برما کی مغربیریاست رخائن میں بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان پر تشدد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں 90 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ گاؤں کے گاؤں کے جلا دئے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز خاموش کھڑی یہ تماشا دیکھتی رہیں، اور کچھ واقعات میں تو خود تشدد میں شامل ہو گئیں۔ حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں انہوں نے واقعہ کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے کمشنر نے دس لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کی دوبارہ آبادکاری کے منصوبوں کو مسترد کر دیا ہے۔
برما کی حکومت ،نسلوں سے وہاں آباد روہنگیا مسلمانوں کو ، اپنے ملک کی شہریت دینے سے منکر ہے، اور انہیں غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیتی ہے۔ انہیں برما میں بہت ہی کم حقوق حاصل ہیں اور اقوام متحدہ انہیں دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیتاہے۔
برما میں سن 2007 کے جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد، اس ہفتے وہاں کے بدھ بھکشو ؤں کے سب سے بڑے مظاہرے ہوئے ہیں۔
اتوار کے روز اپنے روایتی نارنجی رنگ کے لبادوں میں ، سینکڑوں بھکشوؤں نے برما کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں مظاہرے کئے۔ لیکن اس دفعہ یہ بھکشو، صدر تین سین کی حمایت میں مظاہرے کر رہے تھے جنہوں نے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی بے دخلی کے لئے کہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایشیائی خطے کے ڈپٹی ڈائیریکٹر، فِل رابرٹسن کا کہنا ہے کہ اس فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھکشوؤں کے اخلاقی اختیار سے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
رابرٹسن کہتے ہیں کہ صرف چند سال پہلے، یہ بھکشو جمہوریت اور انسانی حقوق کے لئے احتجاج کر رہے تھے، اور آج یہ مخصوص نسلی گروپ کو الگ کرنے اور ان کی ممکنہ بے دخلی کی بات کر رہے ہیں، جس سے اِن خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ کہیں برمی حکومت ان آوازوں پر توجہ دینا شروع نہ کر دے۔
سو اونگ ،برما میں فورم فور ڈیموکریسی کے ترجمان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بھکشوؤں کے ایسے اقدامات سے دکھ ہوتا ہے۔ ان ہی بھکشو ؤں کو سن 2007 کی زعفرانی تحریک کے دوران بری طرح کچلا گیا اور ہلاک کیا ۔
اس موسمِ گرما میں، برما کی مغربیریاست رخائن میں بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان پر تشدد فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان فسادات میں 90 افراد ہلاک ہوئے تھے، جبکہ گاؤں کے گاؤں کے جلا دئے گئے اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی فورسز خاموش کھڑی یہ تماشا دیکھتی رہیں، اور کچھ واقعات میں تو خود تشدد میں شامل ہو گئیں۔ حکام ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں انہوں نے واقعہ کی تحقیق کے لئے ایک کمیشن قائم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے کمشنر نے دس لاکھ کے قریب روہنگیا مسلمانوں کی دوبارہ آبادکاری کے منصوبوں کو مسترد کر دیا ہے۔
برما کی حکومت ،نسلوں سے وہاں آباد روہنگیا مسلمانوں کو ، اپنے ملک کی شہریت دینے سے منکر ہے، اور انہیں غیر قانونی تارکینِ وطن قرار دیتی ہے۔ انہیں برما میں بہت ہی کم حقوق حاصل ہیں اور اقوام متحدہ انہیں دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیتاہے۔