برما کی ایک مغربی ریاست راکین میں جہاں بودھ پیروکاروں اور مسلمانوں کےدرمیان ایک ہفتے تک جاری رہنے والے مہلک ہنگاموں پر قابو پانے میں پولیس کی کامیابی کے بعد اب وہاں خاموشی مگر کشیدگی موجود ہے۔
روہنگیا نسل کے مسلمانوں نے وائس آف امریکہ کی برمی سروس کوتشدد کے دوران تباہی اور توڑ پھوڑ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ سرحدی قصبے مونگداؤ میں خوف وہراس کی فضا ہے۔
جنوب میں ستوے قصبے کے قریبی علاقوں میں بودھ پیروکاروں نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ حفاظت کے لیے تعینات کیے جانے والے سیکیورٹی فورسز کے ارکان کی تعداد اتنی نہیں ہے جو تین ہزار سے زیادہ ان مسلمانوں پرکنٹرول کرسکیں جو تشدد سے بچنے کے لیے شہر میں آگئے ہیں۔
برما کے صدر تھین سین نے اتوار کی رات ٹیلی ویژن پر اپنی تقریر کے دوران ، مذکورہ ریاست میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے قوم کو خبردار کیاتھا کہ صورت حال میں مزید خرابی سے ملک میں جمہوریت کا مستقبل خطرے میں پڑسکتاہے۔
راکین میں گذشتہ اتوار کو بودھ پیروکاروں کے ایک ہجوم کی جانب سے دس روہنگیا نسل کے مسلمانوں کو، اس غلط فہمی کی بنا پر کہ انہوں نے ایک بودھ عورت سے اجتماعتی زیادتی کی تھی، ہلاک کیے جانے کے بعدشدید کشیدگی پائی جارہی ہے۔
برما کی حکومت روہنگیا اقلیت کو ملک کا شہری تصور نہیں کرتی۔
اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق برما کے مغربی حصے میں آٹھ لاکھ روہنگیا مسلمان رہ رہے ہیں۔