اخبار کہتا ہے کہ بر سر اقتدار آنے پر مسٹر اوباما نے ملک کو متحد کرنے کا عہد کیا تھا، لیکن رواں سال کی انتخابی مہم حد سے زیادہ منفی خطوط پر چل رہی ہے۔
وال سٹریٹ جرنل
نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخابات کے امکانات پر وال سٹریٹ جرنل میں ڈیموکریٹک پارٹی کو مشورہ دیا گیا ہے کہ رائے عامّہ کے جائزوں میں صدر اوباما کی حمائت کرنے والے ووٹروں کے گرتے ہوئے تناسب کے پیش نظر اُسے شارلیٹ نارتھ کرولائنا میں پارٹی کنونشن ختم ہونے کے بعد اُن ووٹروں کی حمائت حاصل کرنے پر توجُّہ مرکوز کرنی چاہئےجو یاتو روائتی طور پر خودمختار ہیں ، یا پھر جنہوں نے ابھی یہ طے نہیں کیا کہ کسے ووٹ دیا جائے۔ کیونکہ، اخبار کے مطابق یہی وہ ووٹر ہیں جو بالآخر کسی امیدوار کی کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ان جائزوں میں ری پبلکن امید وار، مٕٹ رامنی کا گراف صدر اوباما کے مقابلے میں بڑھتا جا رہا ہے۔
اخبار نے فاکس نیوزکے ایک استصواب کے حوالے سے بتایا ہے کہ جن خود مختار ووٹروں نے سنہ 2008 میں صدر اوباما کو ووٹ دیا تھا، اُن میں سے55 فیصد اُن کی کارکردگی کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اخبار کہتا ہے کہ ووٹر اور خاص طور پر خود مختار ووٹر جس بات کے متلاشی ہیں ، وُہ امریکہ کے لئےا یک نئی جہت ہے ۔ جس کی بنیاد مالیاتی ڈسپلن ، متوازن بجٹ ، او ر اقتصادی نشوونما پر ہونی چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ بر سر اقتدار آنے پر مسٹر اوباما نے ملک کو متحد کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن رواں سال کی انتخابی مہم حد سے زیادہ منفی خطوط پر چل رہی ہے۔ اس لئے بقول اخبار کےصدر کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اور امّید اور احیاءکے لئے کام کرنا چاہئے، اور انہیں سابق صدر بل کلنٹن کی تقلید کرنی چاہئے، جنہوں نے اپنی صدارت کے دوران، اتّحاد اور اجماع پر زور دیا تھا، تاکہ مالیاتی ڈسپلن قائم کیا جائے ، اخبار نے مسڑاوباما کی اس بات کو سراہتے ہوئے کہ انہوں نے بل کلٹن کو کنونش میں مدعو کیا ، کہا ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے، کہ انہیں اپنی سیاست میں مرکز کی طرف جانے کی ضرورٹ کا احساس ہے۔
لاس انجلیس ٹائمز
ٹیمپا میں ری پبلکن پارٹی کنونشن میں صدر اور نائب صدر کے عہدوں کے لئے نامزد ہونے والے امید واروں، مٹ رامنی ، اور پال رائین اپنی قبولیت کی تقریروں میں جن موضوعات پر بات کی اس پر لاس انجلیس ٹائمزایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ان میں سارا زور اس بات پر تھا کہ چار سال قبل عنان حکومت سنبھالنے پر صدراوباما نے ملکی معیشت کے بارے میں عوام کی توقعات ، حد سے زیادہ بڑھا دی تھیں۔ لیکن وُہ اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُترے۔ چنانچہ اخبار کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا سخت پیغام ہے ، جس کا صدر اوباما کو جواب دینا پڑے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکن لیڈروں کی تقریریں سننے کے بعد اس میں کوئی شُبہ نہیں رہتا کہ ان کی پارٹی کے کٹّر عقائدمعاشرتی قدامت پسندی اور سائنس سے انحراف سے عبارت ہیں۔ یہ بات مٹ رامنی کی ایک تقریر کے اس طعنے سے ظاہر ہے کہ صدر اوباما نے اقتدار سنبھالنے پر وعدہ کیا تھا کہ وہ سمندروں کی سطح کو بلند ہونے سے روکیں گےاور اس کرّہء ارض کا علاج کریں گے۔ جس سے اخبار کے بقول، موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کی طرف ری پبلکن پارٹی کی لاپرواہی عیاں ہوتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکن کنونشن سے پہلے بھی اوباماسے عقیدت رکھنے والے بُہت سے امریکی واشنگٹن کی مفلوج سیات سے بیزار تھے ۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس صورت حال کا زیادہ تر الزام ری پبلکنز پر آتا ہے۔ ا س کے باوجود اخبار کا صدر سے کامطالبہ ہے کہ وُہ اس کی وضاحت کریں کہ اُن کی اگلی میعاد صدارت پہلی میعاد سے کس طرح مختلف ہوگی۔
بوسٹن گلوب
بوسٹن گلوب نے پچھلی صدی کے ایکک کالم نگار ہنری لُوئی ،مین کین کا ایک کالم چھاپا ہے۔ جس میں ایک پارٹی کنونشن کی طوالت کے بعد ایسے کنونشنوں کی روائت ختم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہےکہ1924 میں میڈیسن سکوائر نیو یارک میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن نے اتنا طول کھینچا کہ وہ 16 دن تک جاری رہا۔ کیونکہ صدارتی امیدوار کو نامزد کرنے کے لئے 103 مرتبہ رائے شماری کرنی پڑی تھی۔ جب کہیں جا کر سابق سالی سٹر جنرل جان ڈیوس کو صدر کے عہدے کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ چار ماہ بعد جب انتخابات ہوئے تو ڈیوس صدر کیلوٕن کوُلج کے مقابلے میں ووٹوں کے بھاری فرق سے ہار گئے۔
نومبر میں امریکہ کے صدارتی انتخابات کے امکانات پر وال سٹریٹ جرنل میں ڈیموکریٹک پارٹی کو مشورہ دیا گیا ہے کہ رائے عامّہ کے جائزوں میں صدر اوباما کی حمائت کرنے والے ووٹروں کے گرتے ہوئے تناسب کے پیش نظر اُسے شارلیٹ نارتھ کرولائنا میں پارٹی کنونشن ختم ہونے کے بعد اُن ووٹروں کی حمائت حاصل کرنے پر توجُّہ مرکوز کرنی چاہئےجو یاتو روائتی طور پر خودمختار ہیں ، یا پھر جنہوں نے ابھی یہ طے نہیں کیا کہ کسے ووٹ دیا جائے۔ کیونکہ، اخبار کے مطابق یہی وہ ووٹر ہیں جو بالآخر کسی امیدوار کی کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ ان جائزوں میں ری پبلکن امید وار، مٕٹ رامنی کا گراف صدر اوباما کے مقابلے میں بڑھتا جا رہا ہے۔
اخبار نے فاکس نیوزکے ایک استصواب کے حوالے سے بتایا ہے کہ جن خود مختار ووٹروں نے سنہ 2008 میں صدر اوباما کو ووٹ دیا تھا، اُن میں سے55 فیصد اُن کی کارکردگی کو ناپسند کرتے ہیں ۔ اخبار کہتا ہے کہ ووٹر اور خاص طور پر خود مختار ووٹر جس بات کے متلاشی ہیں ، وُہ امریکہ کے لئےا یک نئی جہت ہے ۔ جس کی بنیاد مالیاتی ڈسپلن ، متوازن بجٹ ، او ر اقتصادی نشوونما پر ہونی چاہئے۔
اخبار کہتا ہے کہ بر سر اقتدار آنے پر مسٹر اوباما نے ملک کو متحد کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن رواں سال کی انتخابی مہم حد سے زیادہ منفی خطوط پر چل رہی ہے۔ اس لئے بقول اخبار کےصدر کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اور امّید اور احیاءکے لئے کام کرنا چاہئے، اور انہیں سابق صدر بل کلنٹن کی تقلید کرنی چاہئے، جنہوں نے اپنی صدارت کے دوران، اتّحاد اور اجماع پر زور دیا تھا، تاکہ مالیاتی ڈسپلن قائم کیا جائے ، اخبار نے مسڑاوباما کی اس بات کو سراہتے ہوئے کہ انہوں نے بل کلٹن کو کنونش میں مدعو کیا ، کہا ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے، کہ انہیں اپنی سیاست میں مرکز کی طرف جانے کی ضرورٹ کا احساس ہے۔
لاس انجلیس ٹائمز
ٹیمپا میں ری پبلکن پارٹی کنونشن میں صدر اور نائب صدر کے عہدوں کے لئے نامزد ہونے والے امید واروں، مٹ رامنی ، اور پال رائین اپنی قبولیت کی تقریروں میں جن موضوعات پر بات کی اس پر لاس انجلیس ٹائمزایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ان میں سارا زور اس بات پر تھا کہ چار سال قبل عنان حکومت سنبھالنے پر صدراوباما نے ملکی معیشت کے بارے میں عوام کی توقعات ، حد سے زیادہ بڑھا دی تھیں۔ لیکن وُہ اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُترے۔ چنانچہ اخبار کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا سخت پیغام ہے ، جس کا صدر اوباما کو جواب دینا پڑے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکن لیڈروں کی تقریریں سننے کے بعد اس میں کوئی شُبہ نہیں رہتا کہ ان کی پارٹی کے کٹّر عقائدمعاشرتی قدامت پسندی اور سائنس سے انحراف سے عبارت ہیں۔ یہ بات مٹ رامنی کی ایک تقریر کے اس طعنے سے ظاہر ہے کہ صدر اوباما نے اقتدار سنبھالنے پر وعدہ کیا تھا کہ وہ سمندروں کی سطح کو بلند ہونے سے روکیں گےاور اس کرّہء ارض کا علاج کریں گے۔ جس سے اخبار کے بقول، موسمیاتی تبدیلی کی حقیقت کی طرف ری پبلکن پارٹی کی لاپرواہی عیاں ہوتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ری پبلکن کنونشن سے پہلے بھی اوباماسے عقیدت رکھنے والے بُہت سے امریکی واشنگٹن کی مفلوج سیات سے بیزار تھے ۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ اس صورت حال کا زیادہ تر الزام ری پبلکنز پر آتا ہے۔ ا س کے باوجود اخبار کا صدر سے کامطالبہ ہے کہ وُہ اس کی وضاحت کریں کہ اُن کی اگلی میعاد صدارت پہلی میعاد سے کس طرح مختلف ہوگی۔
بوسٹن گلوب
بوسٹن گلوب نے پچھلی صدی کے ایکک کالم نگار ہنری لُوئی ،مین کین کا ایک کالم چھاپا ہے۔ جس میں ایک پارٹی کنونشن کی طوالت کے بعد ایسے کنونشنوں کی روائت ختم کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہےکہ1924 میں میڈیسن سکوائر نیو یارک میں ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن نے اتنا طول کھینچا کہ وہ 16 دن تک جاری رہا۔ کیونکہ صدارتی امیدوار کو نامزد کرنے کے لئے 103 مرتبہ رائے شماری کرنی پڑی تھی۔ جب کہیں جا کر سابق سالی سٹر جنرل جان ڈیوس کو صدر کے عہدے کے لئے نامزد کیا گیا تھا۔ چار ماہ بعد جب انتخابات ہوئے تو ڈیوس صدر کیلوٕن کوُلج کے مقابلے میں ووٹوں کے بھاری فرق سے ہار گئے۔