اگلے چار برسوں کے دوران واشنگٹن میں بڑے فیصلے ہوں گے جن کا تعلق معیشت، محصول، خسارے، توانائی اور تعلیم، اور جنگ و امن سے ہوگا۔ یہ وہ فیصلے ہیں جن کا اثر ہماری اہنی زندگیوں کے علاوہ ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں پر پڑے گا: صدر اوباما
صدر براک اوباما نے جمعرات کی رات گئے شارلیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی کےقومی کنوینشن میں امریکہ کے آئندہ چار برسوں کے لیے اہداف کی نشاندہی کی، جِن میں منوفیکچرنگ، توانائی، تعلیم، قومی سلامتی سے متعلق امور کے علاوہ، خسارے میں کمی لانے، روزگار کے مواقع کو فروغ دینے اور دیرپہ فوائد کی حامل معیشت کے حصول کو یقینی بنانے کے مجوزہ اقدام شامل ہیں۔
صدر نے پارٹی کی طرف سے دوسری مدت کے لیےانتخاب کی نامزدگی کی پیش کش قبول کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ صرف نامزدگی قبول کرنے کا نہیں، بلکہ اُن دو مختلف راستوں کے چننے کا ہے جن کی نمائندگی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔
اُن کے بقول، جب آپ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں، اُس وقت آپ کے پاس واضح موقعہ ہوگا کہ کس راستے کو چنا جائے، لیکن یہ ایک ایسا موقعہ ہے جو کئی نسلوں کے بعد ملتا ہے۔
’اگلے چار برسوں کے دوران واشنگٹن میں بڑے بڑے فیصلے ہوں گے، جن کا تعلق معیشت، ٹیکسز اور خسارے، توانائی اور تعلیم، جنگ اور امن سے ہوگا۔ یہ وہ فیصلے ہیں جن کا اثر ہماری اپنی زندگیوں کے علاوہ ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں پر پڑے گا‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ، ’ یہ آئندہ کے نصب العین کی بات ہے۔ میں غلط بیانی نہیں کروں گا کہ جو راستہ میں پیش کررہا ہوں وہ سہل و آسان ہوگا‘۔
’میں ایسا نہیں کیا کرتا۔ آپ مجھے اس لیے منتخب نہیں کرتے کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیا سننا پسند کریں گے۔ بلکہ آپ مجھے منتخب کرتے ہیں تاکہ میں آپ کو سچ سچ بتاؤں۔ اور سچ یہ ہے کہ کئی عشروں کے مسائل کا انبار چند برسوں میں حل نہیں ہوتا‘۔
اُن کے الفاظ میں: ’مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں اور مشترکہ ذمہ داریوں کا تعین درکار ہو گا، اور اس قسم کے جراٴتمندانہ فیصلے کرنے ہوں گے جس طرح کے مسلسل تجربے اِسی طرح کے بدترین معاشی بحران کے دور میں فرینکلن روزویلٹ نے کیے تھے‘۔
اُنھوں نے پارٹی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ جس ورثے کے امین ہیں اُسے نہ بھولیں۔ ’اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ ہر مسئلہ صرف ایک اور حکومتی پروگرام کے آجانے یا واشنگٹن کے احکامات سے حل نہیں ہوا کرتا‘۔
’امریکیو، یہ بات سن لو کہ ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہمیں درپیش چیلنجز کا حل موجود ہے۔ جو راستہ ہم بتا رہے ہیں وہ مشکل تو ہوسکتا ہے، لیکن اس کے نتائج بہتر نکلیں گے۔‘
’میں آپ سے کہتا ہوں کہ میرے دیے ہوئےراستے کا انتخاب کرو‘۔
’میں آپ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ اُن اہداف کے حصول کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں جن کی میں نے نشاندہی کی ہے اور جن کا تعلق منوفیکچرنگ، توانائی، تعلیم، قومی سلامتی، اور خسارے میں کمی لانے سے ہے؛ جو قابل حصول اہداف ہیں جن کی مدد سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، اور اس معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ممکن ہوگا‘۔
’یہی وہ اہداف ہیں جن کے حصول کے لیے ہم آئندہ چار برسوں تک تگ و دو کریں گے، اور یہی وجہ ہے کہ میں دوسری مدت کے لیے امریکہ کا صدر بننے کے لیے میدانِ عمل میں ہوں۔
اہداف:
منوفیکچرنگ: سال 2016ء تک منوفیکچرنگ کی ملازمتوں میں دس لاکھ کا اضافہ کرنا، اور 2014ء تک برآمدات کو دوگنا کرنا۔
توانائی:2020ء تک تیل کی درآمدات کم کرکے آدھی سطح تک لانا۔ رواں دہائی کے مکمل ہونے سے قبل قدرتی گیس کے شعبے میں چھ لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا۔
تعلیم: اگلے 10برسوں کے اندر اندر کالج کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات میں پچاس فی صد تک کی کمی لانا۔ آئندہ دس برسوں کے دوران حساب اور سائنس کے اساتذہ کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ کرنا، اور کمیونٹی کالجوں میں قابل قدر روزگار کے مواقع میں بھرتی کے لیے 20لاکھ کارکنوں کو تربیت دینا۔
قومی سلامتی: اُس سرمائے کو معیشت میں لگانا جو اب جنگ پر خرچ نہیں ہو رہا۔
خسارہ: آئندہ عشرے تک خسارے میں چار ٹرلین ڈالر سے زائد کی کمی کرنا۔
صدر نے پارٹی کی طرف سے دوسری مدت کے لیےانتخاب کی نامزدگی کی پیش کش قبول کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ صرف نامزدگی قبول کرنے کا نہیں، بلکہ اُن دو مختلف راستوں کے چننے کا ہے جن کی نمائندگی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں کرتی ہیں۔
اُن کے بقول، جب آپ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں، اُس وقت آپ کے پاس واضح موقعہ ہوگا کہ کس راستے کو چنا جائے، لیکن یہ ایک ایسا موقعہ ہے جو کئی نسلوں کے بعد ملتا ہے۔
’اگلے چار برسوں کے دوران واشنگٹن میں بڑے بڑے فیصلے ہوں گے، جن کا تعلق معیشت، ٹیکسز اور خسارے، توانائی اور تعلیم، جنگ اور امن سے ہوگا۔ یہ وہ فیصلے ہیں جن کا اثر ہماری اپنی زندگیوں کے علاوہ ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں پر پڑے گا‘۔
صدر اوباما نے کہا کہ، ’ یہ آئندہ کے نصب العین کی بات ہے۔ میں غلط بیانی نہیں کروں گا کہ جو راستہ میں پیش کررہا ہوں وہ سہل و آسان ہوگا‘۔
’میں ایسا نہیں کیا کرتا۔ آپ مجھے اس لیے منتخب نہیں کرتے کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کیا سننا پسند کریں گے۔ بلکہ آپ مجھے منتخب کرتے ہیں تاکہ میں آپ کو سچ سچ بتاؤں۔ اور سچ یہ ہے کہ کئی عشروں کے مسائل کا انبار چند برسوں میں حل نہیں ہوتا‘۔
اُن کے الفاظ میں: ’مسائل کے حل کے لیے مشترکہ کوششیں اور مشترکہ ذمہ داریوں کا تعین درکار ہو گا، اور اس قسم کے جراٴتمندانہ فیصلے کرنے ہوں گے جس طرح کے مسلسل تجربے اِسی طرح کے بدترین معاشی بحران کے دور میں فرینکلن روزویلٹ نے کیے تھے‘۔
اُنھوں نے پارٹی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ جس ورثے کے امین ہیں اُسے نہ بھولیں۔ ’اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلیں کہ ہر مسئلہ صرف ایک اور حکومتی پروگرام کے آجانے یا واشنگٹن کے احکامات سے حل نہیں ہوا کرتا‘۔
’امریکیو، یہ بات سن لو کہ ہمارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ہمیں درپیش چیلنجز کا حل موجود ہے۔ جو راستہ ہم بتا رہے ہیں وہ مشکل تو ہوسکتا ہے، لیکن اس کے نتائج بہتر نکلیں گے۔‘
’میں آپ سے کہتا ہوں کہ میرے دیے ہوئےراستے کا انتخاب کرو‘۔
’میں آپ سے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ اُن اہداف کے حصول کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں جن کی میں نے نشاندہی کی ہے اور جن کا تعلق منوفیکچرنگ، توانائی، تعلیم، قومی سلامتی، اور خسارے میں کمی لانے سے ہے؛ جو قابل حصول اہداف ہیں جن کی مدد سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، اور اس معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ممکن ہوگا‘۔
’یہی وہ اہداف ہیں جن کے حصول کے لیے ہم آئندہ چار برسوں تک تگ و دو کریں گے، اور یہی وجہ ہے کہ میں دوسری مدت کے لیے امریکہ کا صدر بننے کے لیے میدانِ عمل میں ہوں۔
اہداف:
منوفیکچرنگ: سال 2016ء تک منوفیکچرنگ کی ملازمتوں میں دس لاکھ کا اضافہ کرنا، اور 2014ء تک برآمدات کو دوگنا کرنا۔
توانائی:2020ء تک تیل کی درآمدات کم کرکے آدھی سطح تک لانا۔ رواں دہائی کے مکمل ہونے سے قبل قدرتی گیس کے شعبے میں چھ لاکھ ملازمتیں پیدا کرنا۔
تعلیم: اگلے 10برسوں کے اندر اندر کالج کی تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات میں پچاس فی صد تک کی کمی لانا۔ آئندہ دس برسوں کے دوران حساب اور سائنس کے اساتذہ کی تعداد میں ایک لاکھ کا اضافہ کرنا، اور کمیونٹی کالجوں میں قابل قدر روزگار کے مواقع میں بھرتی کے لیے 20لاکھ کارکنوں کو تربیت دینا۔
قومی سلامتی: اُس سرمائے کو معیشت میں لگانا جو اب جنگ پر خرچ نہیں ہو رہا۔
خسارہ: آئندہ عشرے تک خسارے میں چار ٹرلین ڈالر سے زائد کی کمی کرنا۔