شارلیٹ —
"وہ آیا، اس نے دیکھا، اور فتح کرلیا"۔ امریکی سیاسی جماعت 'ڈیموکریٹس' کے حامیوں نے گزشتہ شب ریاست شمالی کیرولائنا کے شہر شارلیٹ میں جاری اپنے قومی کنونشن میں اس مشہورِ زمانہ جملے کا عملی مظاہرہ دیکھا۔
سابق صدر بل کلنٹن کنونشن میں آئے، خطاب کیا، اور چھا گئے!
امریکہ کے 42 ویں صدر رہنے والے بل کلنٹن کا شمار جدید امریکہ کے مقبول ترین صدور میں ہوتا ہے اور ان کے دور میں امریکہ میں آنے والی معاشی خوش حالی کے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں ہی یکساں معترف ہیں۔
جب وہ 2000ء میں صدرِ امریکہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو نہ صرف امریکہ کا بجٹ خسارہ ختم ہوچکا تھا بلکہ ملکی خزانے میں اضافی وسائل موجود تھے۔
سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود صدر کلنٹن آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ اپنی 'کلنٹن فاؤنڈیشن' کے ذریعے وہ دنیا بھر میں سماجی بہبود کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں ان کے عزت و احترام میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
کلنٹن کی اسی مقبولیت اور شہرت کے باعث وہ اس بار ہونے والے 'ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن' کے مرکزی مقررین میں شامل تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ سابق صدر ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی اپنی تقریر میں براک اوباما کی ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
پارٹی کے اس فیصلے پر تو شاید ہی کسی کو اعتراض ہو لیکن درونِ خانہ کنونشن کے منتظمین کل سارا دن اس بارے میں تشویش کا شکار رہے کہ آخر بل کلنٹن اپنی تقریر میں کیا کہیں گے؟ اس تشویش کو بڑھانے میں مسٹر کلنٹن کے اسٹاف کا بھی دخل تھا جس نے ان کے خطاب سے محض چند گھنٹے قبل سابق صدر کی تقریر کا مسودہ منتظمین کے حوالے کیا۔
لیکن یہ مسودہ ملنے کے باوجود کنونشن کی انتظامی کمیٹی کی پریشانی کلنٹن کا خطاب مکمل ہونے تک عروج پر رہی کیوں کہ 48 منٹ طویل اپنی اس تقریر میں سابق صدر نے بیشتر وقت فی البدیہہ خطاب کیا جس کا ان کی لکھی ہوئی تقریر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
لیکن جب تقریر ختم ہوئی تو منتظمین کو اندازہ ہوا کہ وہ بلاوجہ ہی پریشان تھے۔ صدر کلنٹن کا خطاب ان کی توقعات سے کہیں زیادہ مؤثر اور جاندار رہا۔ طنز و مزاح اور ٹھوس حقائق کے عمدہ امتزاج کی حامل اپنی تقریر میں بل کلنٹن نے حالات کا بھرپور تجزیہ کیا اور صدر اوباما پر ری پبلکنز کی جانب سے کی جانے والی تنقید کا نکتہ وار جواب دیا۔
سابق صدر نے اپنی تقریر میں ملازمتوں کی فراہمی، صحتِ عامہ کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات، طلبہ کے لیے قرضوں کے پروگرام، معیشت کی صورتِ حال سمیت ان تمام مسائل اور معاملات کا احاطہ کیا جن کے بارے میں امریکی ووٹرز پریشان ہیں۔
اپنے خطاب میں کئی مواقع پر سابق صدر نے اپنے اور صدر اوباما کے ادوار کا موازنہ کیا اور دونوں صدور کو درپیش چیلنجز اور ان کے مقابلے کی حکمتِ عملی میں موجود یکسانیت کی نشاندہی کی۔
پوری تقریر کے دوران سامعین مکمل طور پر سابق صدر کلنٹن کی مٹھی میں تھے، ان کے ساتھ قہقہے لگا رہے تھے، نعرے بلند کر رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔
سامعین کی اسی دلجمعی اور توجہ کےنتیجے میں سابق صدر بغیر کسی وقفے کے لگاتار 48 منٹ تک بولتے رہے۔ بعض امریکی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بل کلنٹن نے جو تقریر کی وہ تو دراصل کسی صدارتی امیدوار کو کرنی چاہیے تھی۔
ان کی تقریر کے متن اور حاضرین کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سابق صدر نے صدر اوباما کے چار سالہ دورِ اقتدار کا دفاع کرنے اور ووٹروں کو ڈیموکریٹس ہی کو ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی وہ ذمہ داری بخوبی نبھائی جو انہیں دی گئی تھی۔
لیکن اب کئی امریکی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا صدر اوباما بل کلنٹن کی اس شاندار کارکردگی کا مؤثر جواب دے پائیں گے؟ اس سوال کے جواب کے لیے جمعرات کی شب کا انتظار کیجئے جب صدر اوباما 'ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن' سے اپنا کلیدی خطاب کریں گے۔
سابق صدر بل کلنٹن کنونشن میں آئے، خطاب کیا، اور چھا گئے!
امریکہ کے 42 ویں صدر رہنے والے بل کلنٹن کا شمار جدید امریکہ کے مقبول ترین صدور میں ہوتا ہے اور ان کے دور میں امریکہ میں آنے والی معاشی خوش حالی کے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن دونوں ہی یکساں معترف ہیں۔
جب وہ 2000ء میں صدرِ امریکہ کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تو نہ صرف امریکہ کا بجٹ خسارہ ختم ہوچکا تھا بلکہ ملکی خزانے میں اضافی وسائل موجود تھے۔
سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود صدر کلنٹن آرام سے نہیں بیٹھے بلکہ اپنی 'کلنٹن فاؤنڈیشن' کے ذریعے وہ دنیا بھر میں سماجی بہبود کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں ان کے عزت و احترام میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
کلنٹن کی اسی مقبولیت اور شہرت کے باعث وہ اس بار ہونے والے 'ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن' کے مرکزی مقررین میں شامل تھے۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ سابق صدر ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی اپنی تقریر میں براک اوباما کی ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کا باضابطہ اعلان کریں گے۔
پارٹی کے اس فیصلے پر تو شاید ہی کسی کو اعتراض ہو لیکن درونِ خانہ کنونشن کے منتظمین کل سارا دن اس بارے میں تشویش کا شکار رہے کہ آخر بل کلنٹن اپنی تقریر میں کیا کہیں گے؟ اس تشویش کو بڑھانے میں مسٹر کلنٹن کے اسٹاف کا بھی دخل تھا جس نے ان کے خطاب سے محض چند گھنٹے قبل سابق صدر کی تقریر کا مسودہ منتظمین کے حوالے کیا۔
لیکن یہ مسودہ ملنے کے باوجود کنونشن کی انتظامی کمیٹی کی پریشانی کلنٹن کا خطاب مکمل ہونے تک عروج پر رہی کیوں کہ 48 منٹ طویل اپنی اس تقریر میں سابق صدر نے بیشتر وقت فی البدیہہ خطاب کیا جس کا ان کی لکھی ہوئی تقریر سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
لیکن جب تقریر ختم ہوئی تو منتظمین کو اندازہ ہوا کہ وہ بلاوجہ ہی پریشان تھے۔ صدر کلنٹن کا خطاب ان کی توقعات سے کہیں زیادہ مؤثر اور جاندار رہا۔ طنز و مزاح اور ٹھوس حقائق کے عمدہ امتزاج کی حامل اپنی تقریر میں بل کلنٹن نے حالات کا بھرپور تجزیہ کیا اور صدر اوباما پر ری پبلکنز کی جانب سے کی جانے والی تنقید کا نکتہ وار جواب دیا۔
سابق صدر نے اپنی تقریر میں ملازمتوں کی فراہمی، صحتِ عامہ کے شعبے میں کی جانے والی اصلاحات، طلبہ کے لیے قرضوں کے پروگرام، معیشت کی صورتِ حال سمیت ان تمام مسائل اور معاملات کا احاطہ کیا جن کے بارے میں امریکی ووٹرز پریشان ہیں۔
اپنے خطاب میں کئی مواقع پر سابق صدر نے اپنے اور صدر اوباما کے ادوار کا موازنہ کیا اور دونوں صدور کو درپیش چیلنجز اور ان کے مقابلے کی حکمتِ عملی میں موجود یکسانیت کی نشاندہی کی۔
پوری تقریر کے دوران سامعین مکمل طور پر سابق صدر کلنٹن کی مٹھی میں تھے، ان کے ساتھ قہقہے لگا رہے تھے، نعرے بلند کر رہے تھے اور شور مچا رہے تھے۔
سامعین کی اسی دلجمعی اور توجہ کےنتیجے میں سابق صدر بغیر کسی وقفے کے لگاتار 48 منٹ تک بولتے رہے۔ بعض امریکی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بل کلنٹن نے جو تقریر کی وہ تو دراصل کسی صدارتی امیدوار کو کرنی چاہیے تھی۔
ان کی تقریر کے متن اور حاضرین کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سابق صدر نے صدر اوباما کے چار سالہ دورِ اقتدار کا دفاع کرنے اور ووٹروں کو ڈیموکریٹس ہی کو ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی وہ ذمہ داری بخوبی نبھائی جو انہیں دی گئی تھی۔
لیکن اب کئی امریکی حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا صدر اوباما بل کلنٹن کی اس شاندار کارکردگی کا مؤثر جواب دے پائیں گے؟ اس سوال کے جواب کے لیے جمعرات کی شب کا انتظار کیجئے جب صدر اوباما 'ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن' سے اپنا کلیدی خطاب کریں گے۔