امریکی قونصل خانے کے قریب واقع گنجان آباد علاقے سلطان آبادمیں گستاخانہ فلم کے خلاف جاری مظاہروں کے باعث شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔
اگرچہ پورا شہر قائد پچھلے کچھ برسوں سے بدامنی کا شکار ہے اور ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکے اور دستی بم حملے یہاں کا معمول بنتے جارہے ہیں اور ہر طرف ایک انجانہ سا خوف چھایا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود کراچی کا ایک علاقہ ان دنوں اس سے بھی زیادہ سہما ہوا ہے۔ یہ علاقہ ہے سلطان آباد ۔ جی ہاں یہ وہی علاقہ ہے جہاں امریکی قونصل خانہ قائم ہے۔
ملک بھر کی طرح گستاخانہ فلم کے خلاف کراچی میں بھی احتجاج جاری ہے، لیکن اس عمل سے امریکی قونصل خانے کے قریب واقعہ گنجان آباد علاقے سلطانہ آبادمیں شدید خوف و ہراس اور بے چینی پائی جاتی ہے۔
مختلف مذہبی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کی جانب سے کوشش کی جاتی ہے کہ گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج مائی کلاچی روڈ پر واقع امریکی قونصل خانہ کے باہر جا کر ریکارڈ کرایا جائے، مگرسیکورٹی خدشات کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں اورمظاہرین پر جب شیلنگ یا آنسو گیس کا استعمال کیا جاتا ہے تو وہ قونصل خانے سے چند قدم دور سلطان آباد میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیماڑی ٹاوٴن میں واقع سلطان آباد کا شمار کراچی کے نہایت گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔ دراصل یہ ایک کچی آبادی ہے اور یہاں رہائش پذیر اکثریت کا تعلق خیبر پختونخواہ سے جس میں پختون اور ہزارے وال( ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اردو بولنے والے، پنجابی، سرائیکی اور دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔
شہر میں یہ علاقہ تنگ گلیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہاں کیلئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی انجان شخص ان گلیوں میں کھو جائے تو اس کے لئے باہر نکلنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی نوید احمد نے بتایا کہ وہ یہاں گزشتہ بارہ سال سے مقیم ہے، جب وہ یہاں نیا نیاآیا تھا تو ایک دن گھر والوں سے بغیر پوچھے باہر نکل گیا اور واپسی کا راستہ تلاش کرنے میں اسے کئی گھنٹے لگ گئے۔
ایک اور نوجوان یاسر سے جب پوچھا گیا کہ اگر اس علاقے میں کوئی بیمار ہو جائے یا مر جائے تو تنگ گلیوں سے باہر کیسے نکالتے ہیں ۔وہ کہنے لگا کہ ہاتھ والی ریڑھی پر بیٹھا کر زخمیوں کو مین روڈ پر لایا جاتا ہے اور اگر کوئی فوت ہو جائے تو پھر اسٹریچر کے ذریعے یا پھر میت کو ہاتھوں پر اٹھا کر باہر نکالا جاتا ہے۔
پیر کو جب اس علاقے میں ایک احتجاجی جلوس نے امریکی قونصل خانے کی طرف جانے کی کوشش کی توانہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس اور رینجرز اہلکار سلطان آباد میں بھی داخل ہو گئے۔ انہوں نے جب گلیوں میں آنسو گیس اور شیلنگ کی تو گھروں میں موجود خواتین اور بچے بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
ایک معمر شخص محمد زبیر نے بتایا کہ سلطان آباد کراچی کا پر امن علاقہ تھا لیکن گزشتہ چند برسوں میں کچھ لوگ علاقہ غیر سے آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ ان لوگوں کے آنے سے اس علاقے میں جہاں امن و امان کی صورتحال پہلے کے مقابلے میں خراب ہوگئی ہے وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آئے روز سرچ آپریشن کرتے نظر آتے ہیں۔
محمد زبیرکے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ایک اور شخص محمد اقبال کا کہنا تھا کہ امریکی قونصل خانے کی کینٹ کے علاقے سے مائی کلاچی روڈ پر منتقلی سے امید تھی کہ اس علاقے کی قسمت بدل جائے گی اور یہاں ترقیاتی کاموں میں بہتر ی آئے گی، لیکن آئے دن ہونے والے مظاہروں سے علاقہ مکین بہت خوفزدہ ہوگئے ہیں۔
ملک بھر کی طرح گستاخانہ فلم کے خلاف کراچی میں بھی احتجاج جاری ہے، لیکن اس عمل سے امریکی قونصل خانے کے قریب واقعہ گنجان آباد علاقے سلطانہ آبادمیں شدید خوف و ہراس اور بے چینی پائی جاتی ہے۔
مختلف مذہبی جماعتوں اور طلباء تنظیموں کی جانب سے کوشش کی جاتی ہے کہ گستاخانہ فلم کے خلاف احتجاج مائی کلاچی روڈ پر واقع امریکی قونصل خانہ کے باہر جا کر ریکارڈ کرایا جائے، مگرسیکورٹی خدشات کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں اورمظاہرین پر جب شیلنگ یا آنسو گیس کا استعمال کیا جاتا ہے تو وہ قونصل خانے سے چند قدم دور سلطان آباد میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیماڑی ٹاوٴن میں واقع سلطان آباد کا شمار کراچی کے نہایت گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے۔ دراصل یہ ایک کچی آبادی ہے اور یہاں رہائش پذیر اکثریت کا تعلق خیبر پختونخواہ سے جس میں پختون اور ہزارے وال( ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والے ) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اردو بولنے والے، پنجابی، سرائیکی اور دیگر قوموں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں یہاں آباد ہیں۔
شہر میں یہ علاقہ تنگ گلیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہاں کیلئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی انجان شخص ان گلیوں میں کھو جائے تو اس کے لئے باہر نکلنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ یہاں کے ایک رہائشی نوید احمد نے بتایا کہ وہ یہاں گزشتہ بارہ سال سے مقیم ہے، جب وہ یہاں نیا نیاآیا تھا تو ایک دن گھر والوں سے بغیر پوچھے باہر نکل گیا اور واپسی کا راستہ تلاش کرنے میں اسے کئی گھنٹے لگ گئے۔
ایک اور نوجوان یاسر سے جب پوچھا گیا کہ اگر اس علاقے میں کوئی بیمار ہو جائے یا مر جائے تو تنگ گلیوں سے باہر کیسے نکالتے ہیں ۔وہ کہنے لگا کہ ہاتھ والی ریڑھی پر بیٹھا کر زخمیوں کو مین روڈ پر لایا جاتا ہے اور اگر کوئی فوت ہو جائے تو پھر اسٹریچر کے ذریعے یا پھر میت کو ہاتھوں پر اٹھا کر باہر نکالا جاتا ہے۔
پیر کو جب اس علاقے میں ایک احتجاجی جلوس نے امریکی قونصل خانے کی طرف جانے کی کوشش کی توانہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس اور رینجرز اہلکار سلطان آباد میں بھی داخل ہو گئے۔ انہوں نے جب گلیوں میں آنسو گیس اور شیلنگ کی تو گھروں میں موجود خواتین اور بچے بھی بری طرح متاثر ہوئے۔
ایک معمر شخص محمد زبیر نے بتایا کہ سلطان آباد کراچی کا پر امن علاقہ تھا لیکن گزشتہ چند برسوں میں کچھ لوگ علاقہ غیر سے آ کر آباد ہو گئے ہیں۔ ان لوگوں کے آنے سے اس علاقے میں جہاں امن و امان کی صورتحال پہلے کے مقابلے میں خراب ہوگئی ہے وہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آئے روز سرچ آپریشن کرتے نظر آتے ہیں۔
محمد زبیرکے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ایک اور شخص محمد اقبال کا کہنا تھا کہ امریکی قونصل خانے کی کینٹ کے علاقے سے مائی کلاچی روڈ پر منتقلی سے امید تھی کہ اس علاقے کی قسمت بدل جائے گی اور یہاں ترقیاتی کاموں میں بہتر ی آئے گی، لیکن آئے دن ہونے والے مظاہروں سے علاقہ مکین بہت خوفزدہ ہوگئے ہیں۔