افریقہ میں امریکی فوجی دستوں میں اضافہ

امریکہ کی تشویش میں برسوں سے یہ اضافہ ہوتا رہا ہے کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ گروپس، افریقہ میں اپنی سرگرمیاں پھیلا رہے ہیں۔
پورے شمالی اور مغربی افریقہ میں ، اسلامی مغرب میں القاعدہ اور دوسرے عسکریت پسند گروپوں کی بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے، امریکہ، افریقہ میں اپنی فوجی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے ۔ لیکن امریکہ کے محکمۂ دفاع کے عہدے دار ان رپورٹوں کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں کہ انھوں نے علاقے میں انسدادِ ہشت گردی کی کوششوں میں، گذشتہ مہینے کے اُس حملے سے قبل ہی اضافہ کر دیا تھا جس میں لیبیا میں امریکی قونصلیٹ میں چار امریکی ہلاک ہوگئے تھے ۔

مالی کے بہت بڑے حصے پر عسکریت پسندوں نے کنٹرول حاصل کر لیا ہے، اور بمباری کی مہموں اور حملوں کے ذریعے ،نائجیریا سے لیبیا تک، پورے علاقے میں اپنی موجودگی کا احساس دلا یا ہے ۔ ان حالات میں امریکہ کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے ۔

امریکہ کے لیے اہم ترین واقعہ وہ تھا جس میں بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز اور تین دوسرے امریکی ہلاک ہوئے ۔

حال ہی میں امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا نے تصدیق کی کہ یہ دہشت گردوں کی کارستانی تھی۔ ان کا کہناتھا کہ میرے خیال میں، یہ دہشت گردی کا حملہ تھا کیوں کہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے قونصلیٹ پر اور ہمارے لوگوں پر حملہ کیا ۔ یہ دہشت گرد کون تھے، میرے خیال میں، ابھی اس کا تعین تفتیش کے ذریعے ہونا باقی ہے ۔

بن غازی میں حملے کے بعد، امریکہ نے لیبیا اور یمن میں اپنے سفارت خانوں میں میرین کور کی تیزی سے کارروائی کرنے والی ٹیمیں بھیجی ہیں ۔
حملے سے پہلے، پینٹے گان شمالی افریقہ میں اپنی موجودگی کو وسعت دینے کے لیے کام کر رہا تھا ۔ اس نے اسپیشل آپریشنز کی چھوٹی چھوٹی ٹیمیں اور دوسرا عملہ بھیجا ہے جو کئی افریقی ملکوں کی فوجوں کو تربیت دے گا۔ یہ وہ ملک ہیں جو دہشت گردوں سے لڑنے کی صلاحیتیں بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

محکمہ ٔ دفاع کے عہدے داروں نے ان رپورٹوں کی تصدیق نہیں کی ہے جن میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ امریکہ کے سفارتی عملے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے، شاید کمانڈوز بھیجے گئے ہیں۔

امریکہ کی ان کوششوں سے اس تشویش کا اظہار ہوتا ہے جس میں برسوں سے اضافہ ہوتا رہا ہے کہ القاعدہ اور اس سے وابستہ گروپس، افریقہ میں اپنی سرگرمیاں پھیلا رہے ہیں، اگرچہ دوسرے علاقوں میں وہ کافی دباؤ میں ہیں۔

یو ایس افریقہ کمانڈ صدر جارج ڈبلو بش کے عہد میں قائم کی گئی تھی اور وہ اس خطرے کا پتہ چلانے کے لیے کام کرتی رہی ہے ۔ اس نے مغربی افریقہ کے ملک مالی سمیت، افریقہ میں جاسوسی، نگرانی اور تربیت کے مشن روانہ کیے ہیں۔ کمانڈ کے عہدے داروں نے بار بار کہا ہے کہ ان کا افریقہ کے برِ اعظم میں مستقل اڈے قائم کرنا کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اور انھوں نے جو ٹیمیں بھیجی ہیں، ان کی تعداد بہت کم ہے ۔

اس ہفتے ایک پریس بریفنگ میں، پینٹے گان کے ترجمان جارج لٹل نے کہا کہ مغربی افریقہ کے ملکوں کی اقتصادی کمیونٹی یا ECOWAS میں بڑے پیمانے پر امریکہ کی موجودگی قائم کرنے کا امکان نہیں ہے ۔ ان کا کہناتھا کہ اس مرحلے پر مالی میں یا علاقے میں، امریکہ کی یکطرفہ کارروائی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ہمیشہ کی طرح ، ہماری توجہ علاقے کی صورتِ حال پر ہے، اور اگر علاقے میں ہمارے شراکت دار یا دوسرے فریق جیسے ECOWAS ،ہم سے مدد مانگیں گے تو ہم پوری طرح تیار ہوں گے۔

لٹل اور امریکی فوج کے دوسرے عہدے دار یہ تفصیلات بتانے کو تیار نہیں ہیں کہ افریقی شراکت داروں نے کس قسم کی مدد کی درخواست کی ہے ۔

ان آپریشنز کے بارے میں ٹھوس معلومات کے فقدان کی وجہ سے ناقدین میں قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں، جو اس علاقے میں امریکہ کے عزائم کے بارے میں شک و شبہے کا اظہار کر رہے ہیں۔

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ امریکی مفادات کی حفاظت میں توازن قائم رکھا جائے یعنی شراکت دار ملکوں کے علاقوںمیں موجود دہشت گرد گروپوں کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ، ان ملکوں کے لوگوں کو یہ تاثر نہ دیا جائے امریکہ انکی حکومتوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈال رہا ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے ۔