مالی میں فوجیوں نے جو ملک کے شمال میں گذشتہ دوماہ سے جاری ٹوریگ میں بغاوت سے نمٹنے کی حکومتی بدانتظامی سے برہم تھے،کہاہے کہ انہوں نے صدر آمادو ٹومانی ٹورےکا تختہ الٹ دیاہے ، جب کہ ملک کے نئے انتخابات میں محض چند ہفتے باقی ہیں۔ صدر کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔
علاقے کے مکینوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جمعرات کو باغی فوجیوں کی جانب سے ، جو خود کو جمہوریت اور ریاست کی بحالی کی قومی کمیٹی یعنی سی این ڈی آر کا نام دے رہے ہیں، ملک پر کنٹرول کے دعوے کے بعد باماکو میں اکادکا فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
جمعرات کی صح ٹیلی ویژن سی این ڈی آر کے ترجمان آمانڈو کونارے نے کہا کہ مسلح افواج نے صدر آمادو ٹومانی ٹورے کے نااہل دور کے خاتمے کا فیصلہ کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا اگلے اعلان تک ملک کا آئین معطل کردیا گیا ہے اور تمام حکومتی ادارے تحلیل کردیے گئے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ ملک کے نمائندوں سے صلاح مشورے کے بعد حکومت تشکیل دی جائے گی۔
بغاوت کا آغاز بدھ کی صبح دارالحکومت کے قریب شمال مشرق کے علاقے گاؤ میں واقع ایک فوجی کیمپ میں بغاوت سے شروع ہوئی ۔
فوجیوں کا کہناہے کہ ملک کے شمال میں علیحدگی پسند ٹوریگ باغیوں سے لڑنے کے لیے ان کے مناسب ہتھیار، گولہ بارود اور خورا ک نہیں ہے۔ جنوری میں علیحدگی پسندوں کی بغاوت کے آغاز کے بعد سے مالے کے بہت سے فوجی یا تو ہلاک کیے جاچکے ہیں یا وہ گرفتار ہوچکے ہیں۔ دوسری جانب ابھی تک حکومت نے ہلاک یا گرفتار ہونے والے فوجیوں کی درست تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
فوجیوں نے دارالحکومت میں مختلف مقامات پر پڑتالی چوکیاں قائم کرکے کرفیو لگادیا ہے اور ملک کی زمینی اور فضائی سرحدیں بند کردی ہیں۔
مالے میں 29 اپریل کو صدارتی انتخابات ہونے والے تھے۔ صدر ٹورے جو ایک سابق فوجی عہدے دار ہیں اور جنہوں نے سابقہ فوجی بغاوت کی قیادت کی تھی، اپنے عہدے کی دو مدتیں پوری کرنے کے قریب تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ وہ اگلی مدت کے لیے صدر بننے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ بغاوت اور گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات کی منصوبہ بندی کس نے کی تھی۔ تاہم وسائل کی کمی کاسامنے کرنے والی فوج میں مایوسی مسلسل بڑھ رہی تھی۔
فروری میں لڑائی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی بیواؤں اور خاندانوں کے افراد نے بغاوت پر آمادہ علاقوں میں حکومت کی بدانتظامی کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بن کی مون اور افریقی یونین کمشن کے سربراہ جین پنگ ، دونوں نے بغاوت شروع ہونے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد اپنے تحظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے اختلافات پرامن اور جمہوری انداز میں حل کریں۔