عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں خواتین کو دیے جانے والے چھوٹے قرضوں میں سے 50 سے70 فی صد تک قرضے درحقیقت ان کے مرد رشتے داروں کے استعمال میں آتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کی ایک پاکستانی تنظیم کاکہناہے کہ گذشتہ ایک سال کے عرصے میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں سات فی صد تک اضافہ ہواہے۔
پاکستان عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر سال ہزاروں خواتین کو اغوا کیا جاتا ہے، ان کی آبروریزی ہوتی ہے اور قتل کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی یہ تنظیم خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی میڈیا رپورٹس کاجائزہ لیتی ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان کے بنیادی مسائل ، انصاف کا غیر مؤثر نظام اور قدیم معاشی اقدار کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکاہے۔
حالیہ برسوں میں حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ہے لیکن خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر نعیم مرزا کا کہناہے کہ عزت کے نام پر قتل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف قوانین کو پوری قوت سے استعمال میں نہیں لایا جارہا۔
تجزیہ کار اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری کا کہناہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات جنسی تقریق کا ایک پہلو ہے۔ ان کا کہناہے کہ یہ تقریق تعلیم سے لے کر کاروبارتک زندگی کے ہرشعبے میں موجود ہے۔
چھوٹے قرضوں کی مثال ہی کو لیں، عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں خواتین کو دیے جانے والے چھوٹے قرضوں میں سے 50 سے70 فی صد تک قرضے درحقیقت ان کے مرد رشتے داروں کے استعمال میں آتے ہیں۔
اس ہفتے گلوبل جینڈر گیپ کی جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گلوبل اکنامک فورم کے مطابق معاشی سرگرمیوں میں خواتین کے حصے کے لحاظ سے 135 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر134 واں ہے۔
لیکن نعیم مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کی نئی نسل نے، جن میں ملالہ یوسف زئی جیسی لڑکیاں بھی شامل ہیں، پاکستانی معاشرے اور سماجی اقدار کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ اور پاکستان میں بہت سے افراد نے ملالہ کے نظریات کی بناپر طالبان کے قاتلانہ حملے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔
پاکستان عورت فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر سال ہزاروں خواتین کو اغوا کیا جاتا ہے، ان کی آبروریزی ہوتی ہے اور قتل کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی یہ تنظیم خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کی میڈیا رپورٹس کاجائزہ لیتی ہے۔
عورت فاؤنڈیشن کی تازہ ترین رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ پاکستان کے بنیادی مسائل ، انصاف کا غیر مؤثر نظام اور قدیم معاشی اقدار کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکاہے۔
حالیہ برسوں میں حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی ہے لیکن خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ عورت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر نعیم مرزا کا کہناہے کہ عزت کے نام پر قتل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف قوانین کو پوری قوت سے استعمال میں نہیں لایا جارہا۔
تجزیہ کار اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری کا کہناہے کہ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات جنسی تقریق کا ایک پہلو ہے۔ ان کا کہناہے کہ یہ تقریق تعلیم سے لے کر کاروبارتک زندگی کے ہرشعبے میں موجود ہے۔
چھوٹے قرضوں کی مثال ہی کو لیں، عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں خواتین کو دیے جانے والے چھوٹے قرضوں میں سے 50 سے70 فی صد تک قرضے درحقیقت ان کے مرد رشتے داروں کے استعمال میں آتے ہیں۔
اس ہفتے گلوبل جینڈر گیپ کی جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گلوبل اکنامک فورم کے مطابق معاشی سرگرمیوں میں خواتین کے حصے کے لحاظ سے 135 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر134 واں ہے۔
لیکن نعیم مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوانوں کی نئی نسل نے، جن میں ملالہ یوسف زئی جیسی لڑکیاں بھی شامل ہیں، پاکستانی معاشرے اور سماجی اقدار کو چیلنج کرنا شروع کردیا ہے۔ اور پاکستان میں بہت سے افراد نے ملالہ کے نظریات کی بناپر طالبان کے قاتلانہ حملے کے خلاف شدید احتجاج کیا ہے۔