اگر مسٹر اوباما اور کانگریس کسی متفقہ معاہدے پر نہ پہنچ سکے اور ٹیکسوں میں اضافے اور کٹوتیوں کا فارمولہ مؤثر ہوگیا تو اس کے نتیجے میں امریکی معیشت ایک بار پھر کساد بازاری کی جانب بڑھ سکتی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کو جنوری میں اپنے عہدے کی دوسری مدت کا دوبارہ حلف اٹھانے سے قبل فوری طورپر ٹیکس اور سرکاری اخراجات کے اہم مسئلے پر ری پبلیکن اکثریت کی کانگریس کے ساتھ شدید اختلاف کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
صدر اور ایوان نمائندگان کے قانون سازوں نے ملک کو درپیش ایک اہم مالیاتی معاملے کو صدارتی انتخاب کے بعد تک مؤخر کردیاتھا، جس کے تحت یکم جنوری سے ٹیکسوں میں اضافہ اور اخراجات میں کٹوتیاں ، جن کی مالیت 60 ارب ڈالر ہے، خودبخود نافذ ہوجائیں گی۔
اور اب رواں سال ختم ہونے سے پہلے انہیں ان لازمی کٹوتیوں کو التوا میں ڈالنے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنا ہوگا ، بصورت دیگر ٹیکسوں میں خود کار طریقے سے اضافہ اور دفاع اور دوسرے قومی پروگراموں کے اخراجات میں کٹوتیاں شروع ہوجائیں گی۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ اگر مسٹر اوباما اور کانگریس کسی متفقہ معاہدے پر نہ پہنچ سکے اور ٹیکسوں میں اضافے اور کٹوتیوں کا فارمولہ مؤثر ہوگیا تو اس کے نتیجے میں امریکی معیشت ایک بار پھر کساد بازاری کی جانب بڑھ سکتی ہے۔
امریکہ کی معیشت ، جسے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کامقام حاصل ہے، سست روی سے ترقی کررہی ہے اور اس اقتصادی دھچکے سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں ہےجسے 1930 کے عشرے کی عظیم کسادبازاری کے بعد بدترین معاشی سست روی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
لیکن ری پبلیکن اکثریتی کانگریس کے ساتھ کسی معاہدےپر پہنچنا بظاہر کافی مشکل دکھائی دیتاہے۔
ڈیموکریٹک صدر اور ان کے سیاسی حریف ری پبلیکن ایوان نمائندگان ، دونوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ مالیاتی پابندیوں کا خود کار نظام نافذ ہوجائے ۔ چنانچہ اس سے بچنے کے لیے حتمی تاریخ سے پہلے دونوں کو کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی راہ نکالنا ہوگی۔
دونوں پارٹیوں میں بنیادی اختلاف یہ ہے کہ ری پبلیکن یہ چاہتے ہیں کہ ٹیکسوں کا موجودہ نظام برقرار رکھاجائے جب کہ مسٹر اوباما 25 لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ کمانے والے جوڑوں پر، جس کا شمار امیرطبقے میں ہوتا ہے، ٹیکس بڑھانا چاہتے ہیں۔
ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بونیر نے منگل کی رات انتخاب میں اپنی فتح کے بعد جمع ہونے والے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ انتخابی نتائج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکی ٹیکس بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں۔
صدر اور ایوان نمائندگان کے قانون سازوں نے ملک کو درپیش ایک اہم مالیاتی معاملے کو صدارتی انتخاب کے بعد تک مؤخر کردیاتھا، جس کے تحت یکم جنوری سے ٹیکسوں میں اضافہ اور اخراجات میں کٹوتیاں ، جن کی مالیت 60 ارب ڈالر ہے، خودبخود نافذ ہوجائیں گی۔
اور اب رواں سال ختم ہونے سے پہلے انہیں ان لازمی کٹوتیوں کو التوا میں ڈالنے کے لیے کسی معاہدے تک پہنچنا ہوگا ، بصورت دیگر ٹیکسوں میں خود کار طریقے سے اضافہ اور دفاع اور دوسرے قومی پروگراموں کے اخراجات میں کٹوتیاں شروع ہوجائیں گی۔
اقتصادی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ اگر مسٹر اوباما اور کانگریس کسی متفقہ معاہدے پر نہ پہنچ سکے اور ٹیکسوں میں اضافے اور کٹوتیوں کا فارمولہ مؤثر ہوگیا تو اس کے نتیجے میں امریکی معیشت ایک بار پھر کساد بازاری کی جانب بڑھ سکتی ہے۔
امریکہ کی معیشت ، جسے دنیا کی سب سے بڑی معیشت کامقام حاصل ہے، سست روی سے ترقی کررہی ہے اور اس اقتصادی دھچکے سے باہر نکلنے کی تگ و دو میں ہےجسے 1930 کے عشرے کی عظیم کسادبازاری کے بعد بدترین معاشی سست روی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
لیکن ری پبلیکن اکثریتی کانگریس کے ساتھ کسی معاہدےپر پہنچنا بظاہر کافی مشکل دکھائی دیتاہے۔
ڈیموکریٹک صدر اور ان کے سیاسی حریف ری پبلیکن ایوان نمائندگان ، دونوں میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ مالیاتی پابندیوں کا خود کار نظام نافذ ہوجائے ۔ چنانچہ اس سے بچنے کے لیے حتمی تاریخ سے پہلے دونوں کو کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی راہ نکالنا ہوگی۔
دونوں پارٹیوں میں بنیادی اختلاف یہ ہے کہ ری پبلیکن یہ چاہتے ہیں کہ ٹیکسوں کا موجودہ نظام برقرار رکھاجائے جب کہ مسٹر اوباما 25 لاکھ ڈالر سالانہ سے زیادہ کمانے والے جوڑوں پر، جس کا شمار امیرطبقے میں ہوتا ہے، ٹیکس بڑھانا چاہتے ہیں۔
ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بونیر نے منگل کی رات انتخاب میں اپنی فتح کے بعد جمع ہونے والے اپنے حامیوں سے کہا ہے کہ انتخابی نتائج سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکی ٹیکس بڑھانے کے حق میں نہیں ہیں۔