افغان صدر حامد کرزئی نے ملالہ پر حملے میں ملوث افرا دکا پیچھا کرنے کا وعدہ بھارتی ٹیلی ویژن چینل سی این این آئی بی این کے ساتھ اپنے انٹرویو کے دوران کیا۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہاہے کہ وہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کا ، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ افغانستان میں روپوش ہیں، پیچھا کریں گے۔
افغان صدر نے بھارتی ٹیلی ویژن چینل سی این این آئی بی این کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی حکومت ملالہ پر حملہ کرنے والوں کو تلاش کرے گی۔
ٹیلی ویژن چینل نے یہ انٹرویو مسٹر کرزئی کے بھارت کے چارروزہ دورے کے آغاز کےموقع پر نشر کیا ہے جب کہ اسی روز دنیا بھر میں یوم ملالہ بھی منایا جارہاہے۔
ملالہ یوسف زئی کو اکتوبر کے اوائل میں جب وہ سوات کے شہر مینگورہ میں واقع اپنے سکول سے گھر واپس آرہی تھی، مسلح افراد نے سکول ویگن روک کر شناخت کرنے کے بعد سرمیں گولی ماردی تھی ۔ بعد میں طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں طالبان کے ایجنڈے کے خلاف بولنے اور صدر براک اوباما کو آئیڈیل قرار دینے کی سزا دی گئی ہے اور اگر وہ زندہ بچ گئی تو اسے دوبارہ نشانہ بنایا جائے گا۔
اس ہفتے کے شروع میں امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے عہدے داروں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ ملا فضل اللہ ، جس پر الزام ہے کہ ملالہ پر حملے کی منصوبہ کی قیادت اس نے کی تھی، پاکستانی سرحد سے منسلک ایک ایسے علاقے سے اپنی کارروائیاں کررہاہے جہاں کئی سو امریکی فوجی تعینات ہیں۔
اس سے قبل افغان صوبے کنٹر کے گورنر نے اپنی حدود میں ملا فضل اللہ کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ فضل اللہ ان کی ترجیح نہیں، کیونکہ اس کا القاعدہ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ امریکی اور افغان مفادات کو نقصان پہنچا رہاہے۔
پاکستانی حکام نے حال ہی میں افغانستان اور امریکی حکام کو ایک خط بھیجاتھا، جس میں کہا گیا ہے کہ ملالہ پر حملے کا سرغنہ ، ملا فضل اللہ سوات میں فوجی آپریشن کے دوران بھاگ کر افغانستان میں روپوش ہوگیاتھا اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستان کی مدد کی جائے۔
افغان صدر نے بھارتی ٹیلی ویژن چینل سی این این آئی بی این کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کی حکومت ملالہ پر حملہ کرنے والوں کو تلاش کرے گی۔
ٹیلی ویژن چینل نے یہ انٹرویو مسٹر کرزئی کے بھارت کے چارروزہ دورے کے آغاز کےموقع پر نشر کیا ہے جب کہ اسی روز دنیا بھر میں یوم ملالہ بھی منایا جارہاہے۔
ملالہ یوسف زئی کو اکتوبر کے اوائل میں جب وہ سوات کے شہر مینگورہ میں واقع اپنے سکول سے گھر واپس آرہی تھی، مسلح افراد نے سکول ویگن روک کر شناخت کرنے کے بعد سرمیں گولی ماردی تھی ۔ بعد میں طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں طالبان کے ایجنڈے کے خلاف بولنے اور صدر براک اوباما کو آئیڈیل قرار دینے کی سزا دی گئی ہے اور اگر وہ زندہ بچ گئی تو اسے دوبارہ نشانہ بنایا جائے گا۔
اس ہفتے کے شروع میں امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے عہدے داروں نے واشنگٹن پوسٹ کو بتایا تھا کہ ملا فضل اللہ ، جس پر الزام ہے کہ ملالہ پر حملے کی منصوبہ کی قیادت اس نے کی تھی، پاکستانی سرحد سے منسلک ایک ایسے علاقے سے اپنی کارروائیاں کررہاہے جہاں کئی سو امریکی فوجی تعینات ہیں۔
اس سے قبل افغان صوبے کنٹر کے گورنر نے اپنی حدود میں ملا فضل اللہ کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ فضل اللہ ان کی ترجیح نہیں، کیونکہ اس کا القاعدہ سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ امریکی اور افغان مفادات کو نقصان پہنچا رہاہے۔
پاکستانی حکام نے حال ہی میں افغانستان اور امریکی حکام کو ایک خط بھیجاتھا، جس میں کہا گیا ہے کہ ملالہ پر حملے کا سرغنہ ، ملا فضل اللہ سوات میں فوجی آپریشن کے دوران بھاگ کر افغانستان میں روپوش ہوگیاتھا اور اسے انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے پاکستان کی مدد کی جائے۔