2020 تک امریکہ کی تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ گیارہ لاکھ بیرل تک پہنچ جانے کی جو پیش گوئی کی گئی ہے ، اس کی بدولت وہائٹ ہاؤس کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ کم ازکم بعض محاذوں پر ری پبلیکنز اور توانائی پیدا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیں۔
وال سٹریٹ جرنل
اگلے آٹھ دس برسوں میں دنیا میں تیل کی پیدوار کے نقشے میں زبردست تبدیلی آنے والی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں توانائی کے بین الاقوامی اداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2020تک امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔
پیرس میں قائم یہ ادارہ صعنت یافتہ ممالک کو توانائی کی پالیسیوں سے متعلق مشورے دیتا ہے اور اس کا کہناہے کہ امریکہ میں تیل اور گیس کی پیداوار میں جو انقلاب آرہاہے ، اس کی وجہ سے دنیا کا توانائی کانقشہ نئے سرے سے مرتب ہورہاہے۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں نہ صرف توانائی کی فراہمی میں ایک انقلاب آئے گا بلکہ خود امریکی سیاسیات اور سفارت کاری میں بھی اس سے متاثر ہوگی۔
پچھلے سال تک صورت حال یہ تھی کہ روس اور سعودی عرب کے درمیان سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک کی پوزیشن حاصل کرنے کی مسابقت ہورہی تھی۔ لیکن یہ نئی پیش گوئی امریکی صدارتی انتخابات کے فوراً بعد آئی ہے جس میں توانائی ایک اہم موضوع تھا۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر اوباما کی پہلی میعاد صدارت کی توانائی کی پالیسی کے مقابلے میں دوسری معیاد کی پالیسی مختلف ہوگی۔
اخبار کہتا ہے کہ چار سال قبل توانائی کی قلت اور عالمی درجہ حرارت بڑھ جانے کے بارے میں جو تشویش پائی جاتی تھی ، اس نے صدر اوباما کو مجبور کیا کہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج کی حد مقرر کرنے کے قانون کو پاس کیا جائے اور صاف شفا ف توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں پر اربوں وفاقی ڈالر خرچ کیے جائیں۔ لیکن گرین ہاؤس گیس بل سینیٹ میں دم توڑ گیا۔ اور ری پبلیکنز نے سولر پینل بنانے والی ایک کمپنی کے دیوالیہ ہوجانے پر انہیں آڑھے ہاتھوں لیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کی دوسری معیاد صدارت میں ایوان نمائندگان پر ری پبلیکنز کا غلبہ قائم ہے ۔ لہذا موسم کی تبدیلی سے متعلق کوئی قانون پاس ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اور بجٹ خسارے کے پیش نظر صاف شفاف توانائی کے منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کی کوشش بھی محدود ہوجائے گی۔
لیکن 2020 تک امریکہ کی تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ گیارہ لاکھ بیرل تک پہنچ جانے کی جو پیش گوئی کی گئی ہے ، اس کی بدولت وہائٹ ہاؤس کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ کم ازکم بعض محاذوں پر ری پبلیکنز اور توانائی پیدا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیں۔
عالمی توانائی کی معلومات کے ایک اور مستند ادارے یعنی جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ 2030 تک امریکہ میں گیس کا استعمال تیل کے مقابلے میں بڑھ جائے گا۔
نیوز میکس میڈیا
نیوزمیکس میڈیا کہتا ہے کہ اب جب کہ اوباما دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ہیں، ان کی صحت عامہ کے نگہداشت کے قانون کے مستقبل کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
ری پبلیکن صدارتی امیدوار نے کہاتھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو ان کا پہلا کام اس قانون کو ویٹو کرنا ہوگا۔لیکن اب نیوز میکس کے مطابق ایوان نمائندگان کے ری پبلیکن سپیکر جان بینر نے کہاہے کہ اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی کوششیں اب ختم ہوچکی ہیں اور یہ اب ملک کا قانون ہے۔
اس قانون سے ان امریکیوں کے خلاف تفریقی سلوک ختم ہوگیا ہے جوکسی بیماری کی وجہ سے صحت کا بیمہ نہیں کراسکتے تھے اور اس کی روسے بوڑھوں کو دواؤں کی قیمت میں رعایت اور ڈاکٹروں کے معائنے کی مفت سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن پوسٹ اپنے ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ ڈیوڈ پیٹریس کا سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے استعفی قوم کی سیکیورٹی کی قیادت کے لیے ایک سنگین دھچکہ ہے جو ایک برے وقت میں آیا ہے۔ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی متوقع علیحدگی اور قومی سلامتی کونسل میں اعلیٰ عہدے داروں کے امکانی ردوبدل کے پیش نظر صدر اوباما ڈیوڈ پیٹریس کی معلومات اور تجربے سے استفادہ کرسکتے تھے۔ خاص طورپر ایسے وقت میں جب وہ اپنی دوسری معیاد صدارت میں ایران، افغانستان، شام اور دوسرے علاقوں کے مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔ مسٹر پیٹریس کو ان تمام امور پر پوری دسترس حاصل ہے اور ایک فوجی کمانڈر کی حیثیت سے ان کاموجودہ نسل میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اخبار کہتا ہے کہ بعض لوگ یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ آیا مسٹر اوباما کو پیٹریس کا استعفیٰ قبول کرنا چاہیے تھا؟
اگلے آٹھ دس برسوں میں دنیا میں تیل کی پیدوار کے نقشے میں زبردست تبدیلی آنے والی ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں توانائی کے بین الاقوامی اداروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 2020تک امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔
پیرس میں قائم یہ ادارہ صعنت یافتہ ممالک کو توانائی کی پالیسیوں سے متعلق مشورے دیتا ہے اور اس کا کہناہے کہ امریکہ میں تیل اور گیس کی پیداوار میں جو انقلاب آرہاہے ، اس کی وجہ سے دنیا کا توانائی کانقشہ نئے سرے سے مرتب ہورہاہے۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں نہ صرف توانائی کی فراہمی میں ایک انقلاب آئے گا بلکہ خود امریکی سیاسیات اور سفارت کاری میں بھی اس سے متاثر ہوگی۔
پچھلے سال تک صورت حال یہ تھی کہ روس اور سعودی عرب کے درمیان سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والے ملک کی پوزیشن حاصل کرنے کی مسابقت ہورہی تھی۔ لیکن یہ نئی پیش گوئی امریکی صدارتی انتخابات کے فوراً بعد آئی ہے جس میں توانائی ایک اہم موضوع تھا۔ اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر اوباما کی پہلی میعاد صدارت کی توانائی کی پالیسی کے مقابلے میں دوسری معیاد کی پالیسی مختلف ہوگی۔
اخبار کہتا ہے کہ چار سال قبل توانائی کی قلت اور عالمی درجہ حرارت بڑھ جانے کے بارے میں جو تشویش پائی جاتی تھی ، اس نے صدر اوباما کو مجبور کیا کہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کے اخراج کی حد مقرر کرنے کے قانون کو پاس کیا جائے اور صاف شفا ف توانائی پیدا کرنے والی کمپنیوں پر اربوں وفاقی ڈالر خرچ کیے جائیں۔ لیکن گرین ہاؤس گیس بل سینیٹ میں دم توڑ گیا۔ اور ری پبلیکنز نے سولر پینل بنانے والی ایک کمپنی کے دیوالیہ ہوجانے پر انہیں آڑھے ہاتھوں لیا۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر اوباما کی دوسری معیاد صدارت میں ایوان نمائندگان پر ری پبلیکنز کا غلبہ قائم ہے ۔ لہذا موسم کی تبدیلی سے متعلق کوئی قانون پاس ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اور بجٹ خسارے کے پیش نظر صاف شفاف توانائی کے منصوبوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کی کوشش بھی محدود ہوجائے گی۔
لیکن 2020 تک امریکہ کی تیل کی یومیہ پیداوار ایک کروڑ گیارہ لاکھ بیرل تک پہنچ جانے کی جو پیش گوئی کی گئی ہے ، اس کی بدولت وہائٹ ہاؤس کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ کم ازکم بعض محاذوں پر ری پبلیکنز اور توانائی پیدا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کرلیں۔
عالمی توانائی کی معلومات کے ایک اور مستند ادارے یعنی جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ 2030 تک امریکہ میں گیس کا استعمال تیل کے مقابلے میں بڑھ جائے گا۔
نیوز میکس میڈیا
نیوزمیکس میڈیا کہتا ہے کہ اب جب کہ اوباما دوبارہ صدر منتخب ہوگئے ہیں، ان کی صحت عامہ کے نگہداشت کے قانون کے مستقبل کے بارے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
ری پبلیکن صدارتی امیدوار نے کہاتھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو ان کا پہلا کام اس قانون کو ویٹو کرنا ہوگا۔لیکن اب نیوز میکس کے مطابق ایوان نمائندگان کے ری پبلیکن سپیکر جان بینر نے کہاہے کہ اس قانون کو کالعدم قرار دینے کی کوششیں اب ختم ہوچکی ہیں اور یہ اب ملک کا قانون ہے۔
اس قانون سے ان امریکیوں کے خلاف تفریقی سلوک ختم ہوگیا ہے جوکسی بیماری کی وجہ سے صحت کا بیمہ نہیں کراسکتے تھے اور اس کی روسے بوڑھوں کو دواؤں کی قیمت میں رعایت اور ڈاکٹروں کے معائنے کی مفت سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے۔
واشنگٹن پوسٹ
واشنگٹن پوسٹ اپنے ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ ڈیوڈ پیٹریس کا سی آئی اے کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے استعفی قوم کی سیکیورٹی کی قیادت کے لیے ایک سنگین دھچکہ ہے جو ایک برے وقت میں آیا ہے۔ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی متوقع علیحدگی اور قومی سلامتی کونسل میں اعلیٰ عہدے داروں کے امکانی ردوبدل کے پیش نظر صدر اوباما ڈیوڈ پیٹریس کی معلومات اور تجربے سے استفادہ کرسکتے تھے۔ خاص طورپر ایسے وقت میں جب وہ اپنی دوسری معیاد صدارت میں ایران، افغانستان، شام اور دوسرے علاقوں کے مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔ مسٹر پیٹریس کو ان تمام امور پر پوری دسترس حاصل ہے اور ایک فوجی کمانڈر کی حیثیت سے ان کاموجودہ نسل میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان حقائق کے پیش نظر اخبار کہتا ہے کہ بعض لوگ یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ آیا مسٹر اوباما کو پیٹریس کا استعفیٰ قبول کرنا چاہیے تھا؟