رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 میں تھائی لینڈ ، کمبوڈیا ، پاکستان ، ایل سلواڈور اور فلپائن شدید موسمی حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 2012 کے سال کا شمار ایک گرم ترین سال میں ہونے والا ہے۔ موسمیات کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے آب و ہوا کی تبدیلی ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور دنیا بھر میں موسمی حالات شدید تر ہوتے جارہےہیں۔
ا قوام متحدہ کے موسمیاتی ادارےکا کہنا ہے کہ 2012 کے اوائل میں بحرالکاہل سمندری کے علاقے La Nina میں سرد اثرات کے باوجود ، جنوری سے اکتوبر تک کا عرصے میں ، 1850 کے بعد سے، جب سے درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا ہے ، نواں گرم ترین عرصہ تھا۔ ادارے کے مطابق2001 سے 2011 تک ہر سال ریکارڈ پر گرم ترین برسوں میں شامل رہا ۔
موسمیات کے عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل مائیکل جیرود کا کہنا ہے کہ ادارے کی ایک سب سے بڑی تشویش قطبی سمندر کی برف کا پگھلنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برف کا یہ پگھلاؤ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا ۔ اور یہ آرکٹیک سمندر کا ریکارڈ پگھلاؤ تھا۔
ڈبلیو ایم او کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ اور ستمبر کےدرمیان آرکٹیک سمندر کی لگ بھگ بارہ ملین اسکوائر کلومیٹر ز برف پگھلی۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر کے مہینے میں آرکٹیک سمندر کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ پانچ سال پہلے کےمقابلے میں ،جو برف کی ریکارڈ درجے کی پتلی تہہ تھی ، ستمبر کی یہ تہہ18 فیصد کم تھی
وہ کہتے ہیں کہ اس لیے اس سے یہ واضح اشارہ مل رہاہے کہ آب وہوا کی تبدیلی کا رجحان نہ صرف جاری ہے بلکہ آرکٹیک برف کے پگھلنے کےاعتبار سے اس میں تیزی آرہی ہے اور اس کا تعلق عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی سے ہے ۔
منگل کے روز ماحولیات کے جرمن گروپ ’جرمن واچ‘ نے عالمی آب و ہوا کے خطرے کے عالمی انڈیکس شائع کیے جس میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ملک کس طرح شدید موسمی حالات ، مثلاً طوفان، باد و باراں ، گرمی کی لہریں اور خشک سالی سے متاثر ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 میں تھائی لینڈ ، کمبوڈیا ، پاکستان ، ایل سلواڈور اور فلپائن شدید موسمی حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
رپورٹ کےایک مصنف سیون ہارملینگ کا کہنا ہے کہ یہ چیز واضح ہے کہ ترقی پذیر ملک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، لیکن اثرات دنیا بھر پر پڑے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ بیس سال کے مجموعی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ۔ لیکن ترقی پذیر ملکوں میں بھی ایسےواقعات ہوئے اور وہاں شدید موسمی حالات کے باعث 2.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ۔
یہ رپورٹس ایک ایسے وقت میں شائع ہو رہی ہیں جب آب و ہوا سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس دوحہ قطر میں ہورہی ہے۔ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کا مقصد صنعتی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کسی بین الاقوامی معاہدے کی تشکیل ہے ۔ یہ معاہدہ کیوٹو پروٹوکول کی جگہ لے گا جس کی مدت جلد ہی ختم ہونے والی ہے ۔ لگ بھگ 200 ملکوں کے مندوبین کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔
ا قوام متحدہ کے موسمیاتی ادارےکا کہنا ہے کہ 2012 کے اوائل میں بحرالکاہل سمندری کے علاقے La Nina میں سرد اثرات کے باوجود ، جنوری سے اکتوبر تک کا عرصے میں ، 1850 کے بعد سے، جب سے درجہ حرارت کا ریکارڈ رکھنا شروع کیا گیا ہے ، نواں گرم ترین عرصہ تھا۔ ادارے کے مطابق2001 سے 2011 تک ہر سال ریکارڈ پر گرم ترین برسوں میں شامل رہا ۔
موسمیات کے عالمی ادارے کے سیکرٹری جنرل مائیکل جیرود کا کہنا ہے کہ ادارے کی ایک سب سے بڑی تشویش قطبی سمندر کی برف کا پگھلنا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برف کا یہ پگھلاؤ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھا ۔ اور یہ آرکٹیک سمندر کا ریکارڈ پگھلاؤ تھا۔
ڈبلیو ایم او کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ اور ستمبر کےدرمیان آرکٹیک سمندر کی لگ بھگ بارہ ملین اسکوائر کلومیٹر ز برف پگھلی۔ رپورٹ کے مطابق ستمبر کے مہینے میں آرکٹیک سمندر کی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ پانچ سال پہلے کےمقابلے میں ،جو برف کی ریکارڈ درجے کی پتلی تہہ تھی ، ستمبر کی یہ تہہ18 فیصد کم تھی
وہ کہتے ہیں کہ اس لیے اس سے یہ واضح اشارہ مل رہاہے کہ آب وہوا کی تبدیلی کا رجحان نہ صرف جاری ہے بلکہ آرکٹیک برف کے پگھلنے کےاعتبار سے اس میں تیزی آرہی ہے اور اس کا تعلق عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی سے ہے ۔
منگل کے روز ماحولیات کے جرمن گروپ ’جرمن واچ‘ نے عالمی آب و ہوا کے خطرے کے عالمی انڈیکس شائع کیے جس میں یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ملک کس طرح شدید موسمی حالات ، مثلاً طوفان، باد و باراں ، گرمی کی لہریں اور خشک سالی سے متاثر ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011 میں تھائی لینڈ ، کمبوڈیا ، پاکستان ، ایل سلواڈور اور فلپائن شدید موسمی حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
رپورٹ کےایک مصنف سیون ہارملینگ کا کہنا ہے کہ یہ چیز واضح ہے کہ ترقی پذیر ملک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، لیکن اثرات دنیا بھر پر پڑے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ بیس سال کے مجموعی اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے ۔ لیکن ترقی پذیر ملکوں میں بھی ایسےواقعات ہوئے اور وہاں شدید موسمی حالات کے باعث 2.5 ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ۔
یہ رپورٹس ایک ایسے وقت میں شائع ہو رہی ہیں جب آب و ہوا سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس دوحہ قطر میں ہورہی ہے۔ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس کا مقصد صنعتی گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے کسی بین الاقوامی معاہدے کی تشکیل ہے ۔ یہ معاہدہ کیوٹو پروٹوکول کی جگہ لے گا جس کی مدت جلد ہی ختم ہونے والی ہے ۔ لگ بھگ 200 ملکوں کے مندوبین کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔