ووٹنگ کو دو ہفتوں پر پھیلانے کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کی اکثریت صدر مرسی کے خلاف ہڑتال پر ہے۔ اور قانون کے مطابق ووٹنگ کی نگرانی عدلیہ کو ہی کرنا ہوتی ہے۔
مصر کے نصف اہل ووٹرز ہفتے کے روز آئین کے اس متنازع مسودے کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں جس پر گذشتہ کئی ہفتوں سے مظاہرے اور تشدد کے واقعات جنم لے رہے ہیں۔
قاہرہ اور نو دوسرے صوبوں میں مردوں اور خواتین نے اسکولوں میں الگ الگ ووٹ ڈالے ۔
مصری صدر محمد مورسی پہلے ہی اپنا ووٹ ڈا ل چکے ہیں۔
باقی ماندہ نصف اہل ووٹر اگلے ہفتے 22 دسمبر کو آئینی مسودے پر ریفرنڈم میں اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کریں گے۔
ووٹنگ کو دو ہفتوں پر پھیلانے کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کی اکثریت صدر مرسی کے خلاف ہڑتال پر ہے۔ اور قانون کے مطابق ووٹنگ کی نگرانی عدلیہ کو ہی کرنا ہوتی ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کب کیا جائے گا۔
مصرکے صدر مرسی کی سابق جماعت اخوان المسلمین مجوزہ آئین کی حمایت کرتی ہے ۔ جب کہ مسٹر مرسی نے اس سال کےشروع میں صدر بننے کے بعد پارٹی سے استعفی ٰ دے دیا تھا۔
اعتدال پسند ، سیکولر اور مسیحی حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ مجوزہ آئین شہری آزادیوں کومتاثر کرے گا، کیوں کہ اس میں اسلامی شقوں کو تقویت دی گئی ہے اور خواتین کے حقوق کا ذکر کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔
عہدےد اروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے ایک لاکھ بیس ہزار فوجی تعینات کیے ہیں ۔
قاہرہ اور نو دوسرے صوبوں میں مردوں اور خواتین نے اسکولوں میں الگ الگ ووٹ ڈالے ۔
مصری صدر محمد مورسی پہلے ہی اپنا ووٹ ڈا ل چکے ہیں۔
باقی ماندہ نصف اہل ووٹر اگلے ہفتے 22 دسمبر کو آئینی مسودے پر ریفرنڈم میں اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کریں گے۔
ووٹنگ کو دو ہفتوں پر پھیلانے کی وجہ یہ ہے کہ عدلیہ کی اکثریت صدر مرسی کے خلاف ہڑتال پر ہے۔ اور قانون کے مطابق ووٹنگ کی نگرانی عدلیہ کو ہی کرنا ہوتی ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان کب کیا جائے گا۔
مصرکے صدر مرسی کی سابق جماعت اخوان المسلمین مجوزہ آئین کی حمایت کرتی ہے ۔ جب کہ مسٹر مرسی نے اس سال کےشروع میں صدر بننے کے بعد پارٹی سے استعفی ٰ دے دیا تھا۔
اعتدال پسند ، سیکولر اور مسیحی حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ انہیں خدشہ ہے کہ مجوزہ آئین شہری آزادیوں کومتاثر کرے گا، کیوں کہ اس میں اسلامی شقوں کو تقویت دی گئی ہے اور خواتین کے حقوق کا ذکر کو نظر انداز کیا گیا ہے ۔
عہدےد اروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پولنگ اسٹیشنوں کی حفاظت کے لیے ایک لاکھ بیس ہزار فوجی تعینات کیے ہیں ۔