کانگریس اور حکام کی جانب سے بظاہر انٹرنیٹ پر سرکاری بدعنوانی اور رشوت خوری کے خلاف پہلے کی نسبت زیادہ تنقید کی اجازت ملنے سے بہت سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نئے لیڈر ایسے اشارے دے رہے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ پر سینسر کے سخت قوانین میں نرمی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو توقع ہے کہ چین کی لیڈر شپ میں ہر دس سال کے بعد ہونی والی تبدیلی ، جس کا آغاز پچھلے مہینے ہواتھا، ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تقریباً 50 کروڑ افراد کے لیے کسی قدر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے۔
کانگریس اور حکام کی جانب سے بظاہر انٹرنیٹ پر سرکاری بدعنوانی اور رشوت خوری کے خلاف پہلے کی نسبت زیادہ تنقید کی اجازت ملنے سے بہت سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
عوامی تنقید او رنکتہ چینی کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں کئی تحقیقات ہوئیں اور چھوٹی سطح کے کئی عہدے داروں کو برطرف کیا گیا۔
لیکن سوشل میڈیا پر چین کے ایک معروف صحافی مائیکل اینٹی کا کہناہے کہ ابھی تک تبدیلیوں کی سطح بہت کم ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کی وسیع پیمانے کی سرکاری بدعنوانی پر عوامی تنقید، جسے حکمران جماعت کے لیے ایک بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا تھا، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ سرکاری ٹیلی ویژن 1990 سے یہ کام کررہے ہیں ۔ صرف فرق یہ پڑا ہے کہ اب سوشل میڈیا کو بھی اس کی اجازت دے دی گئی ہے۔
چین کے بہت سے انٹرنیٹ بلاگرز کو توقع ہے کہ جلد ہی انہیں اعلیٰ سرکاری عہدے داروں تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
لیکن مائیکل اینٹی کا کہناہے کہ اعلیٰ سطحی قیادت تک انٹرنیٹ بلاگرز کی رسائی شاید اب بھی ممکن نہ ہوسکے کیونکہ بیجنگ ایسے مواد کو فلڑ کردیتا ہے جسے وہ حکمران جماعت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
بہت سے لوگوں کو توقع ہے کہ چین کی لیڈر شپ میں ہر دس سال کے بعد ہونی والی تبدیلی ، جس کا آغاز پچھلے مہینے ہواتھا، ملک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والے تقریباً 50 کروڑ افراد کے لیے کسی قدر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوسکتی ہے۔
کانگریس اور حکام کی جانب سے بظاہر انٹرنیٹ پر سرکاری بدعنوانی اور رشوت خوری کے خلاف پہلے کی نسبت زیادہ تنقید کی اجازت ملنے سے بہت سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
عوامی تنقید او رنکتہ چینی کے نتیجے میں حالیہ دنوں میں کئی تحقیقات ہوئیں اور چھوٹی سطح کے کئی عہدے داروں کو برطرف کیا گیا۔
لیکن سوشل میڈیا پر چین کے ایک معروف صحافی مائیکل اینٹی کا کہناہے کہ ابھی تک تبدیلیوں کی سطح بہت کم ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چین کی وسیع پیمانے کی سرکاری بدعنوانی پر عوامی تنقید، جسے حکمران جماعت کے لیے ایک بڑا مسئلہ تصور کیا جاتا تھا، کوئی نئی بات نہیں ہے۔ کیونکہ سرکاری ٹیلی ویژن 1990 سے یہ کام کررہے ہیں ۔ صرف فرق یہ پڑا ہے کہ اب سوشل میڈیا کو بھی اس کی اجازت دے دی گئی ہے۔
چین کے بہت سے انٹرنیٹ بلاگرز کو توقع ہے کہ جلد ہی انہیں اعلیٰ سرکاری عہدے داروں تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔
لیکن مائیکل اینٹی کا کہناہے کہ اعلیٰ سطحی قیادت تک انٹرنیٹ بلاگرز کی رسائی شاید اب بھی ممکن نہ ہوسکے کیونکہ بیجنگ ایسے مواد کو فلڑ کردیتا ہے جسے وہ حکمران جماعت کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔