ترک وزیر اعظم نے کہا ہے کہ اشتعال انگیزیوں کے باوجود، جِن کا مقصد ترکی کو شام کی خانہ جنگی کی دلدل میں پھنسانا ہے، ترکی میانہ روی کا اپنا طرز عمل برقرار رکھے گا
واشنگٹن —
ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان نے عہد کیا ہے کہ اُن کا ملک شام کی خانہ جنگی سے الگ تھلگ رہےگا، جس سے ایک ہی روز قبل شام کی سرحد کے قریب ترکی کے ایک قصبے میں ہونے والے دوہرے کار بم حملوں کے نتیجے میں کم از کم 46 افراد ہلاک ہوئے۔
اتوار کو استنبول میں اپنے خطاب کے دوران مسٹر اردگان نے کہا کہ اشتعال انگیزیوں کے باوجود، جِن کا مقصد ترکی کو شام کی خانہ جنگی کی دلدل میں پھنسانا ہے، ترکی میانہ روی کا اپنا طرز عمل برقرار رکھے گا۔
ترکی کی حکومت نے کہا ہے کہ حکام نے ہفتےکے روز ریہانلی کے مقام پر ہونے والے اس حملے کے سلسلے میں ترکی کےنو شہریوں کو حراست میں لیا ہے، جن پر شام کے خفیہ ادارے کے ساتھ مراسم کا شبہ ہے۔
اعلیٰ عہدے داروں نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ زیر حراست افراد میں حملے میں ملوث سرغنہ اور منصوبہ ساز شامل ہیں، جِن میں سے کچھ ملزموں نے, اُن کے بقول، اِس بات کا اعتراف کیا ہے۔
اِس سے قبل، اتوار کے ہی روز، شام کے وزیر اطلاعات نے اس بات کی تردید کی کہ اِن بم حملوں میں اُن کی حکومت ملوث ہے۔
عمران الزوبی نے کہا کہ واقع کی ذمہ دار ترکی کی حکومت ہے، کیونکہ اُس نے اپنی سرحد کو ’دہشت گردوں‘ کی پناہ گاہ بنا دیا ہے۔
شام کی حکومت صدر بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے لڑنے والے باغیوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔
ترک وزیر خارجہ احمد داؤداوگلو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے اقدام کرے۔ برلن میں خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ کوئی قدم نہ اٹھا کر، در اصل، بین الاقوامی برادری نے ’ایک شعلے کو آگ بننے میں‘ مدد دی ہے۔
اب تک کسی نے ریہانلی میں ہونے والے بم حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اتوار کو استنبول میں اپنے خطاب کے دوران مسٹر اردگان نے کہا کہ اشتعال انگیزیوں کے باوجود، جِن کا مقصد ترکی کو شام کی خانہ جنگی کی دلدل میں پھنسانا ہے، ترکی میانہ روی کا اپنا طرز عمل برقرار رکھے گا۔
ترکی کی حکومت نے کہا ہے کہ حکام نے ہفتےکے روز ریہانلی کے مقام پر ہونے والے اس حملے کے سلسلے میں ترکی کےنو شہریوں کو حراست میں لیا ہے، جن پر شام کے خفیہ ادارے کے ساتھ مراسم کا شبہ ہے۔
اعلیٰ عہدے داروں نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ زیر حراست افراد میں حملے میں ملوث سرغنہ اور منصوبہ ساز شامل ہیں، جِن میں سے کچھ ملزموں نے, اُن کے بقول، اِس بات کا اعتراف کیا ہے۔
اِس سے قبل، اتوار کے ہی روز، شام کے وزیر اطلاعات نے اس بات کی تردید کی کہ اِن بم حملوں میں اُن کی حکومت ملوث ہے۔
عمران الزوبی نے کہا کہ واقع کی ذمہ دار ترکی کی حکومت ہے، کیونکہ اُس نے اپنی سرحد کو ’دہشت گردوں‘ کی پناہ گاہ بنا دیا ہے۔
شام کی حکومت صدر بشار الاسد کی آمرانہ حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے لڑنے والے باغیوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتی ہے۔
ترک وزیر خارجہ احمد داؤداوگلو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے اقدام کرے۔ برلن میں خطاب کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ کوئی قدم نہ اٹھا کر، در اصل، بین الاقوامی برادری نے ’ایک شعلے کو آگ بننے میں‘ مدد دی ہے۔
اب تک کسی نے ریہانلی میں ہونے والے بم حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔