پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع تھر کے علاقے سے آئے روز کم سن بچوں کی اموات کی خبریں موصول ہو رہی ہیں اور اتوار کو مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مزید دو بچوں کی موت کے بعد یہ تعداد 197 تک پہنچ گئی ہے۔
تھر ایک ریگستانی علاقہ ہے جہاں عموماً بارشوں کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کی صورتحال رہتی ہے لیکن رواں برس خشک سالی کے علاوہ یہاں غذائی قلت کے مسئلے نے بھی سر اٹھایا جس کے باعث اب تک انسانی جانوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد میں مویشی بھی مر چکے ہیں۔
صوبائی حکام یہ کہتے آ رہے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں علاقے میں گندم سمیت دیگر اشیائے ضروری کی فراہمی بھی شامل ہے لیکن یہاں کے لوگوں کی پریشانی فی الحال جوں کی توں ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے علاقے میں کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم بانہہ بیلی کے ایک عہدیدار یونس بندھانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تھر میں صحت عامہ کی ناکافی سہولت سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
"یہاں پر تقریباً 90 فیصد بچوں کی پیدائش غیر تربیت یافتہ اور ناخواندہ دائیوں کے ذریعے ہوتی ہے اور یونین کونسل میں جو بنیادی صحت کے مراکز ہیں وہاں پرجو پیرا میڈیکل اسٹاف ہے اس میں خواتین نہیں ہیں، قحط کی صورت حال کی وجہ سے وہاں جانوروں کے لیے چارہ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے دودھ نہیں میسر ہوتا جو بچوں کے لیے چاہیئے ہوتا ہے اور جانوروں کی چارے کی کمی کی وجہ سے غذا میں کمی واقع ہوتی ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں خاص طور پر پانی اور صحت سے متعلق بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنا کر آنے والے برسوں میں ایسے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
"یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ ترقیاتی کام ہوں خیرات نہ ہو اسی لیے لوگوں نے اپنے نمائندوں سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ عارضی حل دینے کی بجائے کوئی مستقل حل ہو، پہلی ترجیح پانی کی فراہمی ہے، اگر پانی ہو گا تو اسکول موجود رہیں گے اور اگر پانی نہیں ہو گا تو لوگ دوسری جگہوں پر منتقل ہونے پر مجبور ہو جائیں گے اور اسکول کی عمارتیں خالی ہو جاتی ہیں اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کا حال بھی یہی ہے"۔
ادھر پاکستانی فوج بھی تھر میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ایک سرکاری بیان کے مطابق اب تک 63 ٹن سے زائد راشن کی تقسیم کے علاوہ آٹھ ہزار سے زائد افراد کا طبی علاج کیا جا چکا ہے۔