امریکہ کے سینیٹر جان مکین نے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے روس کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے پابندیوں کو ختم کرنے کی قیاس آرائیوں کے تناظر میں کہا ہے کہ ان کا ملک صدر پوتن کے ساتھ "ایسی سودے بازی" نہیں کرے گا۔
ریڈیو فری یورپ/ریڈیو لبرٹی کی یوکرینی سروس سے جمعہ کو دیگر دو امریکی سینیٹرز کے ہمراہ کیف میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پوتن کے ساتھ کوئی بھی ممکنہ سمجھوتہ "ہماری آج کی آزادی اور جمہوریتوں میں مداخلت اور اس کی ساکھ کو متاثر کرے گا۔"
مارچ 2014ء میں روس کی طرف سے یوکرین کے جزیرہ نما کرائمیا کا اپنے ساتھ الحاق کیے جانے اور مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھنے پر امریکی کانگرس نے ماسکو پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
مکین کے ہمراہ موجود سینیٹر لنڈسی گراہم کا کہنا تھا کہ کانگرس 2017ء میں روس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کرے گی جن کا ہدف اس ملک کے توانائی اور بینکاری کے شعبے اور "پوتن اور ان کے قریبی رفقاء" ہوں گے۔
"ہم دو چیزیں کریں گے۔ ہم مزید سخت پابندیوں کے ساتھ پوتن پر دباؤ ڈالیں گے اور ہم یہاں یوکرین سمیت اپنے دوستوں کے لیے زیادہ مدد گار ہوں گے۔"
انٹرویو میں مکین، گراہم اور ڈیموکریٹ سینیٹر ایمے کلوبچر کا کہنا تھا کہ یوکرین کو "مہلک دفاعی ہتھیاروں" کی فراہمی کی کانگرس بہت مضبوط حمایت کرتی ہے تاکہ کیف کو روسی حامیت یافتہ علیحدگی پسندوں سے لڑنے میں مدد دی جا سکے۔
امریکی قانون سازوں نے منسک معاہدوں کی پاسداری نہ کرنے پر بھی ماسکو کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
گراہم کا کہنا تھا کہ "آپ کس طرح آزادانہ اور شفاف انتخاب یا شراکت اقتدار کی بات کر سکتے ہیں جب مشرقی یوکرین کے ساتھ 700 روسی ٹینک تعینات کیے گئے ہوں۔"
ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا ٹرمپ کرائمیا کو روس کا حصہ تسلیم کریں گے، تو گراہم کا کہنا تھا کہ کانگرس ایسے کسی بھی اقدام کا راستہ روکے گی۔
سینیٹر مکین نے بھی گزشتہ ماہ امریکی صدارتی انتخاب سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی کی ای میلز ہیک کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ماسکو پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
رواں ہفتے ہی امریکی صدر براک اوباما نے 29 روسی سفارتکاروں کو ملک سے چلے جانے کا حکم دیتے ہوئے دو روسی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر پابندی عائد کر دی تھی جن کے بارے میں اوباما انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ہیکنگ میں "ملوث" تھے۔
روسی صدر ولادیمر پوتن نے جمعہ کو کہا کہ ماسکو اس پر ایسا ردعمل ظاہر نہیں کرے گا اور کسی بھی امریکی سفارتکار کو روس سے نہیں نکالے گا۔ انھوں نے امریکی انتظامیہ کے فیصلے کو "غیرذمہ دارانہ"قرار دیا تھا۔
جمعہ کو ہی نو منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں روسی صدر کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے انھیں "بہت سمجھدار" قرار دیا تھا۔