پاکستان کے شمالی علاقے کی بہت سی زبانیں ایسی ہیں جو حکومت کی سرپرستی کے فقدان اور اپنی اقتصادی کم مائیگی کی وجہ سے معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔ ان میں سے ایک زبان وخی ہے جسے یونیسکو معدومی کے انتہائی خطرے کی شکار زبان قرار دے چکا ہے۔
گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ کے پروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں وخی زبان کے ایک ماہر اور اس کے فروغ کے لیے کوشاں ایک آن لائن اخبار پامیر ٹائم کے سینیر ایڈیٹر نور پامیری نے نیو یارک سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وخی زبان نے افغانستان میں دریائے آمو کے کنارے واقع ایک علاقے وخان میں جنم لیا جہاں بہت عرصہ پہلے نامعلوم مقامات سے کچھ خانہ بدوش قبائل نے جو گلہ بانی کرتے تھے ڈیرا ڈالا اور ایک دوسرے سے رابطے کے لیے ایک زبان تشکیل دی جسے بعد میں اس علاقے کی نسبت سے وخی کا نام دیا گیا ۔ پھر ان میں سے بہت سے لوگ غالباً جنگ یا قحط اور خشک سالی کی وجہ سے علاقے سے نکلے اور ان میں سے بہت سے تاجکستان کے علاقے بدخشاں چلے گئے، کچھ چین کے علاقے سنکیانگ کے پامیر پہاڑ کے ارد گرد آباد ہو گئے جب کہ کچھ ہنزہ میں آباد ہو گئے جو بعد میں پاکستان کا حصہ بن گیا۔
نور پامیری نے کہا کہ اس وقت یہ زبان ان چار ملکوں، پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد ساٹھ ستر ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔
نور پامیری نے کہا کہ اس زبان کے معدوم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس زبان کا ابھی تک کوئی ایک رسم الخط تشکیل نہیں دیا جا سکا ہے اس لئے اس کو لکھنے والے لکھ نہیں سکتے اور بولنے والے بول نہیں سکتے۔ تاجکستان میں اسے ایک روسی قسم کے رسم الخط میں لکھا جاتا ہے، افغانستان میں عربی حروف تہجی میں پاکستان میں عربی اور رومن حروف تہجی میں لکھا جاتا ہے جب کہ چین میں اسے چینی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس زبان کو سب سے پہلے کراچی میں ایک کتاب کا حصہ بنایا گیا تھا ۔ پھر وخی تاجک کلچرل ایسو سی ایشن نے دو تین دہائیوں تک اس کے فروغ کے لیے کام کیا اور مختلف فیسٹیولز اور تقربیات کے ذریعے اس زبان کو شناخت دینا شروع کی ۔ حال ہی میں یو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے ہنزہ میں وخی میوزک کے تربیتی ادارے نے وخی نوجوانوں کو وخی میوزک کی تربیت دینے کے ساتھ ساتھ وخی گیتوں کو ایک کتابی شکل دے کر ایک اہم قدم اٹھایا۔ جب کہ وخی زبان کے معروف شاعر نذیر احمد بلبل کی کتاب بلبلیک کی اشاعت بھی اس زبان کی ترویج میں ایک اہم باب ہے۔
انہوں نے کہا کہ حال ہی میں گلگت بلتستان کی حکومت نے علاقائی زبانوں کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں وخی زبان شامل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کے تحت وخی زبان کا ایک قاعدہ بنے گا جسے پہلے سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جائے گا اور بعد میں یہ یقینی طور پر پرائیویٹ اسکول بھی شروع کریں گے۔
انہوں نےکہا کہ کیوں کہ وخی زبان کسی تحریری شکل میں موجود نہیں ہے اس لیے سوشل میڈیا اس جیسی زبانوں کے لیے ایک امید کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں ایسی زبانوں کی آڈیو یا ویڈیو بھی پوسٹ ہو سکتی ہیں جنہیں سن کر اور دیکھ کر انہیں سمجھا اور بولا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پامیر ٹائم کے تحت وخی ڈاٹ آرگ کے ب نام سے ایک ویب سائٹ قائم کی گئی ہے جہاں وخی زبان کی کوئی خبر، کوئی نیا گانا اور کبھی کبھی وخی شاعروں کے انٹرویوز پوسٹ کر دیے جاتے ہیں ۔ اور یو ں کوئی بھی وخی جو تاجکستان، افغانستان، پاکستان یا چین میں بیٹھا ہو انہیں دیکھ اور سن سکتا ہے اور ایک دوسرے سے رابطہ کر سکتا ہے۔
نورپامیری نے کہا کہ وخی زبان وثقافت کے بندھن سے بندھے ہنزہ کے لوگ وخی زبان، اس کی شاعری اور فوک گیتوں کوزبانی حد تک زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سینہ در سینہ اگلی نسلوں تک منتقل کر رہے ہیں۔