پاکستان کے شمالی علاقے کی ایک مقبول اور زرخیز زبان وخی جسے یونیسکو نے معدومی کے زبردست خطرے سے دوچار زبان قرار دیا ہے، امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے یو ایس ایڈ کی فنڈنگ سے قائم موسیقی کے ایک تربیتی ادارے"بلبلیک" کی مدد سے دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔
افغانستان کے علاقے وخان سے جنم لینےوالی زبان وخی پاکستان، افغانستان، تاجکستان اور چین میں بولی جاتی ہے اور اس وقت اس کے بولنے والوں کی تعداد ساٹھ ستر ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔
ہنزہ کے علاقے گوجال میں گلمیت ایجو کیشن اینڈ سوشل سوسائٹی کے تحت قائم وخی میوزک کے تربیتی ادارے بلبلیک کے فاؤنڈنگ پراجیکٹ مینیجرعبد الوحید بیگ نے گزشتہ دنوں وائس آف امریکہ کےپروگرام ہر دم رواں ہے زندگی میں شرکت کی اوروخی زبان کو دوبارہ زندہ کرنے سے متعلق ادارے کی کوششوں پر روشنی ڈالی جب کہ ادارے کے کچھ تربیت یافتہ فنکاروں نے وخی زبان میں نغمے پیش کیے۔
عبد الوحید بیگ نے بتایا کہ بلبلیک کا مطلب وخی زبان میں بلبل کی چہکار ہے اورادارے کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ یہ بلبل کی چہکار کی طرح وخی گیتوں کی چہکار سےمحبت اور امن کا پیغام پھیلا رہا ہے۔ کچھ اسی طرح جیسا کہ پرانے زمانے میں پامیر پہاڑ کے ارد گرد آباد وخی گلہ بان خاص طور پر گلہ بان خواتین اپنے پیغامات ایک دوسرے کو پہنچانے کے لیے گیتوں کا سہارا لیتی تھیں۔
وحید بیگ نےبتایا کہ بلبلیک نے وخی موسیقی کو بحال کرنے کےلیے سب سےپہلے وخی گیتوں کو اکٹھا کیا پھر ایسے لوگوں کو ڈھونڈھا جو روائتی ساز بجا سکتے تھے جس کے بعد انہوں نے مقامی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے ان طالب علموں کو، جو وخی زبان بولتے اور سمجھتے تھے ادارے میں وخی گیت گانے اور وخی ساز بجانے کی تربیت کا بندو بست کیا۔
انہوں نےمزید کہا کہ صرف تقریباً ایک سال میں ادارہ 75 طالب علموں کو وخی گیت گانے اور وخی ساز بجانے کی تربیت دے چکا ہے۔ اوراب بلبلیک ایک برانڈ بن چکا ہے جس کےفن کاروں کو اب علاقائی، قومی اور بین الاقوامی سطح کی تقربیات میں وخی میوزک پیش کرنے کی دعوت دی جارہی ہےاور یوں یہ نوجوان نہ صرف وخی زبان کے تحفظ اور ترويج کے لئے کام کر رہے ہیں بلکہ اپنے روزگار کا بھی ایک معقول بندو بست کرنے کے قابل ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وخی زبان معدوم ضرور ہو رہی ہے لیکن ہنزہ کے بہت سے لوگ اسے جانتے بھی ہیں اور بولتے بھی ہیں جب کہ اس زبان میں لوگ شاعری بھی کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ وخی کے ایک مشہور شاعر نذیر احمد بلبل کی شاعری کو بلبلیک کےنام سے کتابی شکل میں محفوظ کیا جا چکا ہے۔ جب کہ لوک گیتوں کو نئی نسل تک پہنچانے اور وخی زبان میں آئندہ ریسرچ کرنے والوں کے لیے وخی لوک گیتوں کو بھی"پیوند"کے عنوان ایک کتابی شکل میں محفوظ کیاجا چکا ہے۔
وخی کے گلوکار سلطان مدد نے، جو بلبلیک کے تھیم سونگ کے مرکزی گلوکار ہیں، اور کراچی کی ایک یونیورسٹی کے طالب علم ہیں کہا کہ بلبلیک بینڈ میں شامل ہونے کے بعد ان میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ وہ وخی گیتوں کی مدد سے اپنی زبان اپنےثقافتی ورثے اور اپنی وخی شناخت کو زندہ رکھیں اور وخی نغموں میں موجود محبت اور پیار کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلائیں۔
بلبلیک سے گلوکاری اور رباب کی تربیت حاصل کرنے والی ایک نوعمر سالہ طالبہ سدرہ نے بتایا کہ وہ کئی مقامی اور قومی سطح کے پروگراموں میں وخی گیت پرفارم کر کے حاضرین سے داد وصول کر چکی ہیں ۔ انہوں نےکہا کہ ہنزہ میں لوگ خواتین کوموسیقی کے شعبے میں دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور انہیں بہت سراہتے ہیں۔