انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ہمیں یہ خبریں سن کر تشویش ہوئی ہے کہ پولیس نے پاکستان کے علاقے حیات آباد میں إفطار سے قبل پی ٹی ایم کے پرامن مظاہرین پر حملہ کیا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت طاقت کے غیر ضروری استعمال کی ممانعت ہے اور اس واقعہ کی لازماً بلاتاخیر تحقیقات کی جانی چاہیئں۔
گزشتہ ماہ کی 26 تاریخ کو شمالی وزیرستان کے علاقے خڑکمر چیک پوسٹ پر سیکورٹی فورسز اور پی ٹی ایم کے کارکنوں کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں پی ٹی ایم کے گرفتار رہنما علی وزیر اور محسن داوڑ کی رہائی کے لیے پشاور میں جاری اس دھرنے کو بزورِ طاقت ختم کروانے پر پشاور کیپٹل سٹی پولیس آفیسر کے ترجمان الیاس سدوزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس نے دھرنے کے شرکاء کو گزشتہ پانچ دنوں سے مکمل سیکورٹی فراہم کی ہوئی تھی، تاکہ شرپسند عناصر کی طرف سے کوئی انہیں نقصان نہ پہنچائے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں چاند رات اور عید کے موقع پر رش بڑھنے سے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ نے شہر میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے کارکنوں کو قانون کی پاسداری کرنے اور سیکورٹی کے پیش نظر دھرنا ملتوی کرنے کا کہا گیا جس پر مظاہرین نے احتجاج کیا اور سڑکوں پر نکل کر ٹریفک میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، جس کے جواب میں پولیس کو لاٹھی چارج کر کے انہیں منتشر کرنا پڑا۔
پی ٹی ایم کی رہنما ثنا اعجاز نے وائس آف امریکہ کی ڈیوا سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساڑھے پانچ بجے کا وقت تھا۔ اس دوران بہت زیادہ تعداد میں پولیس اہل کار آئے۔ انہوں نے کہا کہ ٹینٹ ہٹا دو اور دھرنا ختم کر کے یہاں سے چلے جاؤ۔ جب دھرنے سے لوگ نہیں اٹھے تو انہوں نے لاٹھی چارج کیا اور دھرنے کے شرکا پر تشدد کیا۔ پولیس چار پانچ لوگوں کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ لے گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں کو اسپتال لے جایا گیا۔ ایک شخص کا سر پھٹ گیا تھا۔
’’میں نے جب موقعہ پر موجود ایس پی سیکورٹی سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں اوپر سے آرڈر ہے۔ کیونکہ دفعہ 144 لگی ہوئی ہے‘‘۔
ثنا اعجاز نے بتایا کہ ایک دن پہلے تک دفعہ 144 نہیں لگی تھی۔
ثنا اعجاز نے مزید بتایا کہ کل حکومت کی طرف سے بنایا گیا جرگہ بات چیت کے لیے آیا اور ہمیں یقین دہانی کرائی کہ علی وزیر اور محسن داوڑ سمیت پیر کے روز کے واقعے اور خڑکمر کے واقعے میں گرفتار ہونے والے پی ٹی ایم کے کارکنوں کو رہا کر دیا جائے گا اور ایف آئی آر بھی ختم کر دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ صرف عید کے دنوں کی بات ہے، آپ اپنا احتجاج واپس جاری رکھ سکیں گے۔ لیکن آدھی رات کو فون آیا کہ اب بات ہمارے بس سے باہر ہو چکی ہے‘‘۔
ثنا اعجاز نے کہا کہ ہم عید کے دوسرے دن سے احتجاج دوبارہ شروع کریں گے۔