ورلڈ اکنامک فورم کی سالانہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2019ء کے مطابق، دُنیا کے 153 ممالک میں پاکستان کا درجہ 151 ہے، اور خواتین کو برابری دینے میں پاکستان صرف عراق اور یمن سے آگے ہے۔
موجودہ دور میں پاکستان میں خواتین یوں تو ہر میدان میں دکھائی دینے لگی ہیں، لیکن، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تعلیم، صحت، سیاست اور اقتصادی میدان میں صنفی تفریق ختم ہونے میں نصف صدی سے زیادہ عرصہ لگ جائے گا۔
سال 2006ء سے ہر سال جاری ہونے والی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں صنفی تفریق کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ہر ملک کی چار شعبوں میں کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔
صنفی تفریق جانچنے کے لئے چار مقرر کردہ اصولوں کے تحت معاشی شراکت اور مواقع کے اعتبار سے پاکستان کا درجہ 150، تعلیمی کارکردگی میں 143 صحت اور بقا کے اصول پر 149 اور سیاسی اختیار کے اصول کے تحت 93 نمبر پر ہے۔
خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سرگرم کارکن، فیروزہ بتول ان اعداد و شمار سے متفق دکھائی دیتی ہیں۔
فیروزہ بتول نے کہا کہ پاکستان میں سیاست کے میدان میں خواتین کو دیکھیں تو وہ مخصوص نشستوں پر انتخاب لڑتی ہیں۔ لیکن، اُنہیں لوگ منتخب نہیں کر رہے۔ اگر روزگار کے حوالے سے بات کریں تو اُس میں خواتین کا نمبر بہت کم ہے اور بہتر پوزیشنز پر بھی خواتین نہیں بلکہ مرد ہیں۔
بقول ان کے، ’’پالیسیز اور پاکستان کا قانون کچھ حد تک فرینڈلی ہے، پرو وویمن لاز ہیں۔ لیکن، جب لوگوں کے رویے کی طرف دیکھتے ہیں تو وہاں چیزیں ہمیں فرینڈلی دکھائی نہیں دیتیں۔ اور کسی بھی سیکٹر میں جب خواتین اپلائی کرتی ہیں تو لوگوں کا رویہ ویلکمنگ نہیں ہوتا‘‘۔
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں قومی سطح پر پالیسی بنائی جانی چاہیے؛ اور اگر کہیں اعداد بڑھ رہے ہیں تو وہ کوٹہ سسٹم کی وجہ سے ہے۔ بقول ان کے، معاملات تبھی درست ہوں گے جب درکار اقدامات کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق، گزشتہ 13 سالوں میں پاکستان میں خواتین کے حقوق کی صورتحال بد سے بدترین ہوتی جا رہی ہے؛ اور درجہ بندی کے اعتبار سے پاکستان 112ویں سے 151ویں نمبر پر آیا ہے۔
حقوق خواتین کے لئے کام کرنے والی بشریٰ خالق کہتی ہیں کہ ریاست کو خواتین کو تشدد سے پاک ماحول فراہم کرنے کے لئے اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔ ان کے الفاظ میں ’’بہت بار ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ ریاست ایسے کسی بھی اعداد و شمار کو جھٹلاتی ہے، اور کہتی ہے کہ یہ مغربی ایجنڈہ ہے۔ یہ رویہ نہیں اپنایا جانا چاہیے۔ بلکہ، اب وقت ہے کہ وہ خواتین کی بہتری کے لئے قدم اٹھائیں‘‘۔
رکن پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ صنفی امتیاز ختم کرنے کے لئے تمام شعبہ جات میں خواتین کا کردار بڑھانے پر زور دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’کسی بھی طرح کی اقتصادی ترقی یا کسی بھی شعبے میں خواتین کو برابر کردار دیے بغیر ممکن نہیں۔ ہماری حکومت نے بہت سے ایسے پروگرام متعارف کرائے ہیں جو خواتین کو برابری کی سطح پر لا سکیں۔ بے شک چیزیں اپ ٹو دا مارک نہیں ہیں۔ لیکن، مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ بطور پارلیمینٹرین میں آنے والے وقت میں خواتین کا کردار بہتر دیکھ رہی ہوں۔‘‘
رپورٹ کی درجہ بندی کے اعتبار سے بنگلہ دیش 50، نیپال 101، سری لنکا 102، بھارت 112ویں، مالدیپ 123 اور بھوٹان 131ویں نمبر پر ہے۔ ماہرین کے مطابق، جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی پاکستان کا سب سے نچلی سطح پر ہونا انتہائی تشویشناک ہے۔