افغانستان کی سرکاری یونیورسٹیاں بدھ کو دوبارہ کھول دی گئی ہیں جو گزشتہ برس طالبان کےاقتدار سنبھالنے کے بعد سے بند تھیں۔یونیورسٹی میں طلبا کے ساتھ طالبات بھی تدریس کا آغاز کرسکیں گی۔ طالبان انتظامیہ نے باضابطہ طور پر یونیورسٹی کی طالبات کےلیے پالیسی کا اعلان نہیں کیا، لیکن تعلیمی حکام نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ خواتین کو اس شرط پر کلاسوں میں جانے کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ مرد طلبا سے علیحدہ بیٹھیں گی۔
خبررساں ادارے رائٹرز نے مشاہدہ کیا کہ مشرقی شہر جلال آباد کی ننگرہار یونیورسٹی میں طالبات الگ دروازے سےداخل ہورہی تھیں۔
انیس سو چھیانوے سے دو ہزار ایک تک اپنے سابقہ دورحکومت میں سخت گیر اسلام پسند طالبان نے خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔ گروپ کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا اور پندرہ اگست کو دوبارہ اقتدار سنبھالنے کےبعد سے ان میں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن وہ اپنےلائحہ عمل میں ابہام کا شکار رہے ہیں اور بہت سے صوبوں میں ہائی اسکول کی عمر کی لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہیں دی گئی۔
کچھ نجی یونیورسٹیاں دوبارہ کھل گئی ہیں، لیکن بہت سی جگہوں پر طالبات اپنی کلاسوں میں نہیں جاسکی ہیں۔ننگرہار یونیورسٹی میں میڈیکل کی ایک طالبہ نے سیکورٹی وجوہات کی بنا پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی کلاسیں پہلے ہی الگ کی جاچکی ہیں۔لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ وہ اب بھی مرد اساتذہ سے پڑھیں گی اور کلاس روم سے باہر مرد طلبا سے بات چیت کرسکتی ہیں یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ صرف ہماری شفٹ الگ کی گئی ہے، اور ہمیں کہاگیا ہے کہ جب تک لڑکوں کی کلاسیں ختم نہ ہوجائیں یونیورسٹی کے اطراف میں نظر نہ آئیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تمام تبدیلیوں اور شرائط کے باوجود میں اب بھی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں، کیونکہ تعلیم ادھوری نہیں رہنی چاہئے۔
عالمی برادری نے مزید غیر ملکی امداد اور بیرون ملک منجمد اثاثوں کی بحالی کے خواہاں طالبان سےکیے گئے مطالبات میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کو کلیدی حصہ بنایا ہے۔ امدادی گروپوں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں منجمد مالیاتی نظام اور غیر ملکی امداد میں آنے والی کمی سے انسانی تباہی جنم لےگی جو پہلے ہی کئی دہائیوں کی جنگ کی زد میں ہے۔ اقوام متحدہ نے منگل کو سرکاری یونیورسٹیوں میں طالبات کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دینے کے عمل کی تعریف کی ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی ایلچی ڈیبورہ لیون نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "آئیے ہم سب افغانستان کی یونیورسٹیوں میں طلبا وطالبات کی واپسی کی حمایت کریں۔" انھوں نے ٹوئٹ میں مزید کہا کہ اس عمل کی حامی خواتین اور مرد پروفیسروں کےلیے اسکالر شپ پروگراموں اور جاری اعانت پر غور کرسکتے ہیں۔
تعلیم سے وابستہ ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ،کیونکہ وہ سرکاری موقف دینے کا مجاز نہیں، میڈیا کو بتایا کہ یونیورسٹیوں کو طالبات کو الگ تھلگ رکھنے کے لیے الگ الگ کلاسیں اور کام کرنے کے الگ الگ اوقات سمیت مختلف آپشن دیےگئے تھے۔
ننگر ہار یونیورسٹی کے سربراہ خلیل احمد بھیسودوال نے رائٹر زکو بتایا کہ انسٹیٹیوٹ میں طلبا اور طالبات الگ الگ کلاسیں لیں گے ، یہ طریقہ بہت سے صوبوں میں پہلے ہی رائج ہے۔
بدھ کو صرف ان صوبوں میں یونیورسٹیاں کھلی ہیں جہاں سخت سردی نہیں ہے۔ کابل سمیت دیگر سرد علاقوں کے ادارے چھبیس فروری کو دوبارہ کھلیں گے۔
خبر کا مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے)