آب و ہوا کی تبدیلی اور کرہ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت پر نظر رکھنے والے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ برف باری کی اوسط میں مسلسل کمی اور پہاڑوں پر سے برف کی تہوں کا تیزی سے پگھلاؤ ہر سال جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ پر قابو پانے میں مشکلات پیدا کر سکتا ہے، کیونکہ برف جنگلات کی آگ کو پھیلنے سے بچانے میں مدد فراہم کرتی ہے۔
امریکہ کی کئی ریاستوں میں سینکڑوں میلوں تک جنگلات پھیلے ہوئے ہیں، جن میں سے کئی جنگلوں میں ہر سال آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ بعض دفعہ آتشزدگی شروع ہونے کی سبب انسانی غفلت یا لاپرواہی ہوتی ہے جب کہ اکثر اوقات خشک اور گرم موسم درختوں کی خشک شاخوں کے آپس میں رگڑ کھانے یا آسمانی بجلی گرنے کے واقعات آگ کے آغاز کا باعث بن جاتے ہیں جنہیں تیز ہوائیں پھیلاتی چلی جاتی ہیں۔
گرم ہوتے ہوئے موسموں کی وجہ سے جنگلات میں آگ لگتی ہے، جس کے نتیجے میں، ان علاقوں میں جہاں موسم سرما میں برف بھی پہلے سے کم پڑ رہی ہے، جنگلات کی دیکھ بھال کرنے والوں کو آگ بھڑک اٹھنے کے بعد اس پر قابو پانے میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گرم موسم میں آتش زدگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے جنگلات کا محکمہ ایک پروگرام کےتحت خشک اور گرم موسم کی آمد سے قبل جنگلات کے خشک اور مردہ درختوں اور جھاڑیوں کو اپنی نگرانی میں جلا دیتا ہے تاکہ آتشزدگی کے موسم میں وہ آگ کے پھیلاؤ کا سبب نہ بن سکیں۔
SEE ALSO: قرضوں کا بوجھ اور ماحولیاتی مسائل: پاکستان نئے سال کے بڑے خطرات کے لیے کتنا تیار ہے؟غیر یقینی موسم کی وجہ سے ریاست کولاراڈو کے پائیک سان ازابیل نیشنل فارسٹ میں لکڑی کے بڑے بڑے ڈھیروں کو جلانا محفوظ نہیں ہے کیونکہ کئی بار ان جگہوں پر جہاں برف موجود نہیں ہے،جس کی وجہ سے فائر فائٹرز کے لیے یہ نیا پروگرام مکمل کرنا مشکل ہو رہا ہے، کیونکہ برف کے موجود نہ ہونے کی صورت میں ارد گرد کے جنگل کو آگ لگنے کا اندیشہ ہے۔
ان فائرفائٹرز کا ہدف ہے کہ اس قدر فالتو لکڑی اور درختوں کو جلا کر ختم کر دیا جائے تاکہ آئندہ اگر ان جنگلات میں آتش زنی کے واقعات رونما ہوں تو وہ پہلے جیسے تباہ کن نہ ہوں، جن کی وجہ سے بڑے پیمانے پر جنگلات جل کر یہاں خالی میدان رہ گئے ہیں۔ موسم سرما کے اواخر کی وجہ سے اس کام کے مکمل کرنے کا وقت بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔
امریکی فارسٹ سروس کے رینجر ڈیوڈ نیڈہام نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سردیوں کے موسم کے اوقات کار گھٹنے کی وجہ سے ان کا کام پہلے سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیوڈ فروری کے اواخر سے، جب اس علاقے میں درجہ حرارت منفی 18 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، اس علاقے میں اس آپریشن کے نگران ہیں۔ ارد گرد کی پہاڑیوں میں ابھی بھی 2002 میں لگنے والی آگ کے نشانات باقی ہیں جس میں 133 گھر بھی جل گئے تھے اور اس وقت یہ ریاست کی تاریخ کی سب سے بڑا آتش زنی کا واقعہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے دنوں میں وہ منفی درجہ حرارت پر انحصار کرتے ہیں اور چھوٹے موٹے برف کے طوفان بھی ان کے کام آتے ہیں۔
اس وسیع پہاڑی علاقے میں ایک لاکھ ایکڑ کے رقبے میں مختلف جگہوں پر لکڑی اور نئے کٹے ہوئے درختوں کے انبار پڑے ہوئے ہیں جنہیں جلد ہی جلایا جائے گا لیکن کئی جگہوں پر یہ بہت دور دراز علاقوں میں ہیں جہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔
امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کے ریسرچر اور ریاست نیو جرسی کے ماہر موسمیات ڈیوڈ رابنسن کے مطابق اس علاقے میں بہار کا موسم جلد آ رہا ہے اور برف کی تہہ پہلے سے دو ہفتے قبل ہی پگھل جاتی ہے۔ انہوں نے یہ اندازہ سیٹلائیٹ کی مدد سے پچھلے 50 برس میں برف میں ڈھکے علاقے کی تصاویر کی جانچ سے لگایا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یاد رہے کہ 2020 ریات کولاراڈو میں جنگلات میں آتش زنی کے حوالے سے بدترین سال تھا۔ معاون ماہر موسمیات، بیکی بولنجر کے مطابق اس ریاست میں گرمی اور خزاں کے موسم بھی پہلے سے زیادہ گرم اور خشک ہو گئے ہیں۔ بقول ان کے، جنگلات کے حوالے سے یہ پہلے سے بہت ہی مختلف حالات ہیں۔
(اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)