افغان سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں افغانستان کا سفارت خانہ اور دو قونصل خانے 23 مارچ سے بند کر دیے جائیں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے حکام پیر کے روز افغان سفارت کاروں سے ملے تاکہ انہیں تین افغان سفارتی دفاتر کو بند کیے جانے کے بارے میں مطلع کر سکیں۔
یہ اقدام کابل میں غنی حکومت گرنےکے سات مہینے بعد کیا جا رہا ہے۔ کئی مہینوں سے ان مشنز کے مستقبل کے بارے میں انتظامی اور سفارتی طور پر گفتگو جاری تھی۔
شٹ ڈاؤن کےاس منصوبے کے تحت امریکی محکمہ خارجہ کا فارن مشنز کا آفس واشنگٹن کے سفارت خانے اور نیویارک اور لاس اینجلس کے قونصل خانوں کا انتظام سنبھالے گا جس میں ان عمارتوں کی حفاظت اور دیکھ بھال شامل ہیں۔
SEE ALSO: افغانستان کا معاشی بحران جنگ سے زیادہ مہلک ثابت ہو سکتا ہے، اقوام متحدہ کا اظہار تشویشدو افغان سفارت کاروں کے مطابق افغانستان کا قومی پرچم جسے طالبان نے اپنے سفید جھنڈے سے تبدیل کر دیا ہے، افغان سفارتی عمارتوں پر لہراتا رہے گا۔
ان مشنز میں موجود ایک سو کے قریب افغان سفارتی عملے کے ارکان میں سے اکثر نے یا تو امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دے رکھی ہیں یا بہت سے لوگ کینیڈا منتقل ہو چکے ہیں۔ 25 کے قریب سفارتی کارکنوں کو 23 اپریل سے پہلے امریکہ میں اپنے امیگریشن کے اسٹیٹس کو تبدیل کرنا ہوگا۔
امریکی حکام نے پہلے یہ اشارہ دیا تھا کہ جنوری 18 کو افغان سفارت خانے کو بھیجے گئے ایک خط کے تحت صرف عدیلہ راز امریکہ میں افغان سفیر کے طور پر اپنی خدمات جاری رکھ سکتی ہیں۔ جب کہ باقی سفارتی عملے کو کام بند کرنا ہوگا۔
لیکن ایک سفارتی کارکن کے مطابق افغان سفارت کاروں نے اس پیش کش کو رد کر دیا تھا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ شدید مالی مشکلات کی وجہ سے افغان سفارتی مشن کے لیے اپنا کام کاج جاری رکھنا مشکل ہو چکا تھا۔
افغان سفارت کاروں کو اکتوبر 2021 کے بعد سے اب تک تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ سفارت کاروں کی ان کے بینک اکاؤنٹ تک رسائی بھی پچھلے برس ختم ہو گئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ اور قونصلر سروس فیسوں پر گزارہ کر رہے تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
محکمہ خارجہ کے مطابق سفارت خانے کے بینک اکاؤنٹ تک رسائی ختم کرے کا فیصلہ سٹی بینک نے کیا تھا جس میں امریکی حکومت مداخلت نہیں کر سکتی۔
امریکہ کے افغانستان میں سابق سفیر اور ادارے امریکن اکیڈمی آف ڈپلومیسی کے صدر رونلڈ نیومین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بینک اکاؤنٹ تک رسائی کا معاملہ سیاسی کے بجائے مالی نوعیت کا تھا۔
بقول ان کے ’’مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سیاسی وجوہات نہیں تھیں۔‘‘
محکمہ خارجہ نے جمعے کے روز کہا کہ ہم یہ اقدام حالات کو دیکھ کر کر رہے ہیں اور اس کا کسی بھی پالیسی سے تعلق نہیں ہے۔
جب کہ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے دو افغان سفارتی کارکنو ں نے کہا کہ محکمہ خارجہ کا فیصلہ صرف مالی نوعیت کا نہیں ہے۔
ایک سابق سینئیر افسر نے، جن کے دنیا بھر میں افغان سفارت خانوں میں تعلقات ہیں، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’سفارت خانہ اور دونوں قونصل خانے، قونصلر کی خدمات سے کافی آمدنی بنا رہے تھے۔‘‘
ایک اور افغان سفارت کار نے کہا کہ ’’ہمارے بند ہونے والے بینک اکاؤنٹ میں سات لاکھ ڈالر کے قریب رقم موجود ہے۔‘‘
SEE ALSO: کیا داعش خیبر پختونخوا میں بڑا خطرہ بن کر اُبھر رہی ہے؟یاد رہے کہ امریکہ وہ پہلا ملک ہے جس نے افغان سفارت خانے کو بند کیا ہے۔ یورپ، کینیڈا، روس، آسٹریلیا اور دوسرے ممالک میں افغان سفارت خانے ابھی بھی کام کر رہے ہیں۔ افغانستان کا نیویارک میں اقوام متحدہ کے لیے مستقل مشن بھی کام کرتا رہے گا۔
ایک یورپی ملک کے دارالحکومت میں قائم افغان سفارت خانے میں کام کرنے والے ایک سفارت کار نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے میزبان ملک نے اسے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اپنی سرکاری خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اس نے بتایا کہ میزبان ملک نے مالی امداد کی بھی پیشکش کی ہے۔
ابھی تک دنیا میں کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن بہت سے ممالک طالبان حکام کے ساتھ سفارتی سطح پر رابطے میں ہیں۔