پاکستان کے شہر پشاور کی مسجد میں حالیہ خود کش حملے کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی جس کے بعد یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ شدت پسند تنظیم صوبہ خیبرپختونخوا میں منظم ہو رہی ہے۔ مذکورہ خود کش حملے میں 60 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔
شیعہ مسجد میں ہونے والے خود کش دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انتباہ کیا ہے کہ دولتِ اسلامیہ (داعش) صوبے میں مزید حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
خیبرپختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ داعش پاکستان کے لیے کافی عرصے سے خطرہ بنی ہوئی ہے، لیکن ہمارے اداروں نے اب اس کا ادراک کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب 2014 میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تو اُنہوں نے اس وقت ایک اجلاس میں داعش کی موجودگی کا ذکر کیا، تاہم اس وقت کے وفاقی وزیرِ داخلہ نے یہ بات نظر انداز کر دی تھی۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کافی عرصے تک اس حقیقت کو جھٹلاتا گیا تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ جغرافیائی، معاشی اور سماجی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے نئی تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں اور پھر ایک نئی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔
سابق صوبائی سیکریٹری داخلہ کے مطابق پہلے اس خطے میں القاعدہ کا وجود تھا۔ بعد میں تحریکِ طالبان پاکستان نے زور پکڑا۔ کیونکہ ایک خاص ذہنیت یہاں موجود تھی۔ بلاآخر تحریکِ طالبان پاکستان، القاعدہ اور لشکرِ طیبہ جیسی تنظیموں سے منحرف افراد نے اس خطے میں داعش خراسان کی بنیاد رکھی۔
یاد رہے کہ اورکزرئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے منحرف لیڈر حافظ سعید خان نے 2015 میں اس خطے میں داعش کی بنیاد رکھی تھی۔
شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے سوئیڈن میں مقیم محقق عبدالسید سابق صوبائی سیکریٹری داخلہ سے اتفاق کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ داعش سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے رہا ہے۔ اس کا نیٹ ورک یہاں مضبوط رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیکیورٹی اداروں کو تشویش ہے کہ داعش یہاں اپنے قدم جمانا چاہتی ہے۔
اُن کے بقول افغانستان میں داعش کے خلاف افغان طالبان نے متعدد کارروائیاں کی ہیں جس کے بعد اب یہ خیبرپختوںخوا میں اپنے ٹھکانے بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
عبدالسید نے مزید بتایا کہ پشاور کی شیعہ مسجد میں داعش کا حالیہ حملہ پاکستان میں اس کی سب سے بڑی دہشت گردی کی کارروائی ہے۔
اُن کے بقول اس سے قبل داعش خیبرپختونخوا میں چھوٹی موٹی کارروائیاں کرتی رہتی تھی۔
عبدالسید کہتے ہیں کہ داعش کی خیبرپختونخوا میں موجودگی افغان طالبان کے ان دعوؤں کی بھی نفی کرتا ہے کہ داعش کی خطے میں کمر توڑ دی گئی ہے۔
اُن کے بقول خیبرپختونخوا کو داعش نے اپنی افغانستان تنظیم میں ضم کر دیا ہے جو 2019 تک داعش پاکستان کا حصہ تھا۔
عبدالسید کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا خصوصاً پشاور میں داعش اپنے حملوں کے حوالہ سے کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا مگر اس حملے کے بعد ان حکومتی دعوؤں کو تقویت ملی جن کا کہنا تھا کہ داعش خیبر پختونخوا میں ایک بڑا خطرہ ہے۔
دوسری جانب ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ داعش جیسی تنظیمیں بہت خطرناک ہوتی ہیں کیونکہ یہ جغرافیائی سرحدوں پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔ اگر اس کا ایک سرا کراچی میں ہو گا تو دوسرا سرا شام میں ہو گا۔ عراق میں ہو گا۔ سوڈان میں ہو گا۔ لبنان میں ہو گا۔ ایک جگہ اگر سختی ہو جاتی ہے تو یہ دوسری جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔
خیبرپختونخوا حکومت کیا کر رہی ہے؟
صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے صوبہ بھر میں انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں اور اس حوالے سے سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں متحرک ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے واضح کیا کہ صوبے میں پولیس کی نفری بڑھا دی گئی ہے اور حساس مقامات پر سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کی گئی ہے۔
اُن کے بقول مسجد دھماکے کے بعد صوبائی حکام نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہل کاروں کے ساتھ کئی میٹںگز کی ہیں جس میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید فعال کیا گیا ہے۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ کوچہ رسالدار کے واقعے کے بعد سرچ آپریشن میں اضافہ کیا گیا ہے اور گزشتہ دنوں پشاور کے ریگی کے علاقے میں تین دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا اور اس حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر کارروائیاں جاری ہیں۔
سابق سیکریٹری داخلہ کے مطابق انتہا پسند تنظیموں کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔
اُن کے بقول افغان جہاد کے دوران سوویت یونین کے خلاف یہ تنظیمیں بنیں اور لوگوں کو بھرتی کیا گیاہے پھر طالبان آ گئے اور یہ لوگ اُن کے ساتھ مل گئے۔
سید اختر علی شاہ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جو ایک تنظیم سے دوسری اور پھر تیسری میں چلا جاتا ہے اور اب داعش میں بھی کئی ایسے لوگ ہیں جو ماضی میں کئی شدت پسند تنظیموں کا حصہ رہ چکے ہیں۔
اُن کے بقول ایسی تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ اس ذہنیت کے خلاف لڑائی ہے جو ایسے گروپس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے پروان چڑھاتی ہے۔