(ویب ڈیسک) امریکہ کے صدر جو بائیڈن اس ماہ اپنی توجہ مشرق وسطی کے اپنے حساس دورے پر مبذول کر رہے ہیں جو سعودی عرب کے طاقتور ولی عہد کے ساتھ تعلقات کی ترتیب نو میں ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہو گا کیونکہ بائیڈن اس سے قبل ان کی مذمت کر چکے ہیں۔
ابھی تک صدر بائیڈن اس بارے میں واضح نہیں ہیں کہ آیا ان کی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بالمشافہ ملاقات ہو گی یا نہیں، جن کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی نےیہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ سال 2018 میں واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ صحافی جمال خشوگی کے قتل کے پیچھے ان کا کردار تھا۔
ایسے میں جب توقع کی جا رہی ہے کہ امریکی صدر سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ولی عہد سے ملاقات کریں گے، بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کے جدہ کے دورے کا مقصد خلیجی ممالک کے ایک سربراہ اجلاس میں شریک ہونا ہے نہ کہ ولی عہد کے ساتھ ملاقات کرنا۔
بائیڈن کے الفاظ میں ’ یہ سعودی عرب میں ہے لیکن سعودی عرب کے بارے میں نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ ایسا کوئی عہد نہیں کیا جا رہا۔ میں خود بھی ابھی کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ میرا خیال ہے کہ سعودی شاہ اور فرماں روا کے ساتھ میری ملاقات ہو گی لیکن یہ کوئی ایسی ملاقات نہیں جس کے لیے میں خاص طور پر جا رہا ہوں۔ وہ بڑی ملاقاتوں کا ایک حصہ ہوں گی۔ ‘‘۔ بائیڈن نے یہ بات گزشتہ جمعرات کو سپین کے شہر میڈرڈ میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہی تھی۔
SEE ALSO: مہنگائی کے اثرات صارفین پر پڑ رہے ہیں: وائٹ ہاؤس کا اعترافاس حوالے سے واقفیت رکھنے والے ایک ذریعے کے مطابق صدر بائیڈن کےان بیانات پر ان سعودی حکام میں اضطراب پیدا ہوا ہے جو ولی عہد کی حمایت کرتے ہیں اور صدر کے تبصروں کو توہین آمیز خیال کرتے ہیں۔
’’ جب بھی وہ یہ کہتے ہیں کہ میں ولی عہد سے نہیں ملوں گا، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ ان سے فائدہ بھی مانگیں اور ملاقات تک سے انکارکریں۔‘‘
بائیڈن نے محمد بن سلمان کو، جنہیں ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے، خشوگی کی موت کے بعد ’ پاریہ‘ یعنی ’ کم ذات‘ کہا تھاا اور اپنی صدارت کے ابتدائی دنوں میں یہ بھی کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں وہ شاہ سلمان پر توجہ مرکوز رکھیں گے نہ کہ ان کے صاحبزادے پر۔
ایسے میں جب یوکرین پر روس کے حملے کے سبب امریکہ کو متعدد مسائل کا سامنا ہے، صدر بائیڈن کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی کوشش کریں۔
تیل کی قیمتوں میں بڑے اضافے کے بعد بائیڈن کو تیل سے مالا مال سعودی عرب کی ضرورت ہے، جبکہ سعودی عرب کی طرف سے یمن میں جنگ بندی میں توسیع کے بعدامریکی صدر اس جنگ کے خاتمے کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔اسکے علاوہ مشرق وسطی میں ایران اور عالمی سطح پر چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی امریکی ترجیحات میں شامل ہے۔
SEE ALSO: صدر بائیڈن کی آمد سے قبل سعودی ولی عہد علاقائی ممالک کے دورے کیوں کر رہے ہیں؟اس معاملے کی فہم رکھنے والےایک امریکی عہدہ دار نے رازداری کی شرط پر بتایا ہے کہ کئی ہفتے اس حوالے سے متزلزل رہنے کے بعدصدر بائیڈن کو ان کے مشیروں نے مشورہ دیا ہے کہ تیل کی بلند قیمتوں اور ایران سے علاقائی سطح پر خطرات نے اس دورے کو اہم بنا دیا ہے۔
ان کے حتمی فیصلے کو اسرائیل کی طرف سے حوصلہ افزائی سے بھی مزید تقویت ملی ۔ اسرائیل توقع رکھتا ہے کہ صدر بائیڈن کا سعودی عرب کا یہ دورہ عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی میں سعودی حمایت کو یقینی بنائے گا۔ صدر بائیڈن نے میڈرڈ میں کہا تھا کہ اسرائیل نے ان کے سعودی عرب کے دورے کی بھرپور حمایت کی ہے۔
بائیڈن کے مشرق وسطی کے اس دورے میں ان کا پہلا پڑاو 13 سے 16 جولائی کے درمیان اسرائیل میں ہو گا۔
انسانی حقوق پر زور
صدر نے کوشش کی ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ا سٹریٹجک تعلقات بہتر بنانے اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کے مطالبات میں ایک توازن قائم کر سکیں جو کہتے ہیں کہ یہ دورہ صدر بائیڈن کے ان وعدوں کے منافی ہے جن میں وہ کہا کرتے تھے کہ وہ انسانی حقوق کو امریکہ کی خارجہ پالیسی میں مرکزی حیثیت دیں گے۔
ڈیموکریٹ جماعت کے چار سینئر سینٹرز جیف مرکلے، پیٹرک لیہی، ران ویڈن اوررچرڈ بلومینتھل نے بائیڈن کو ایک خط لکھا ہے جس میں ان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس دورے کو خطے کے اندر انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق تحفظات پر گفتگو کے لیے استعمال کریں۔
سنٹر فارا سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشرق وسطی پروگرام کے ڈائریکٹر جان آلٹرمین کہتے ہیں کہ بائیڈن کا دورہ ایک اہم اتحادی کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ضروری ہے لیکن سیاسی طور پر صدر کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
(اس خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا)